وہی اخلاص و مروت کی پرانی تہمت
دوستو کوئی تو الزام نیا دے جاؤ
کوئی صحرا بھی اگر راہ میں آئے انورؔ
دل یہ کہتا ہے کہ اک بار صدا دے جاؤ
ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے
نا امیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ
دشمنی کا کوئی پیرایۂ نادر ڈھونڈو
جب بھی آؤ مجھے جینے کی دعا دے جاؤ
درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ
کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلا دے جاؤ
یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں
میری راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ
اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے
اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی
شبنم کی تراوش سے بھی دکھتا تھا دل زار
گھنگھور گھٹاؤں کو برسنے کی پڑی تھی
پلکوں کے ستارے بھی اڑا لے گئی انورؔ
وہ درد کی آندھی کہ سر شام چلی تھی
لہراتے ہوئے آئے تھے وہ امن کا پرچم
پرچم کو اٹھائے ہوئے نیزے کی انی تھی
ڈوبے ہوئے تاروں پہ میں کیا اشک بہاتا
چڑھتے ہوئے سورج سے مری آنکھ لڑی تھی
پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مٹ بھی گئی تھی
بجلی نے گھٹاؤں پہ جو تحریر لکھی تھی
چپ سادھ کے بیٹھے تھے سبھی لوگ وہاں پر
پردے پہ جو تصویر تھی کچھ بول رہی تھی
جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے
یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے
مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے
گوہر اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ
یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے
سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی
تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے
Yar koi quetta sy hy kya??
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کے
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے
آخری بات مجھے یاد ہے اس کی انورؔ
جانے والے کو گلے سے نہ لگاؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تو ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے
تیرے رستے کا جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے
کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے
تجھے نہیں ہے ابھی فرصت کرم نہ سہی
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے
انہیں شکایت بے ربطی سخن تھی مگر
جھجک رہا تھا میں اظہار مدعا کرتے
چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سو انورؔ
نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے
ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے
تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے
اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے
کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے
مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے
ab khof ni mujh ko us rah guzar sy..
mn door nikal aya hon us kanch nagar sy...
jo bhi hon acha ya bura apny liye hon..
mn khud ko ni dekhta oron ki nazar sy..
رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی
وقت گزرا ہے پہ موسم نہیں بدلا یارو
ایسی گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی
چل پڑا ہوں شوق بے پروا کو مرشد مان کر
راستہ پر پیچ ہے یا پر خطر جیسا بھی ہے
سب گوارا ہے تھکن ساری دکھن ساری چبھن
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے
وہ تو ہے مخصوص اک تیری محبت کے لئے
تیرا انورؔ با ہنر یا بے ہنر جیسا بھی ہے
جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ در جیسا بھی ہے
سر چھپانے کو میسر تو ہے گھر جیسا بھی ہے
اس کو مجھ سے مجھ کو اس سے نسبتیں ہیں بے شمار
میری چاہت کا ہے محور یہ نگر جیسا بھی ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain