جاں کو آفات نہ آفات کو جاں چھوڑتی ہے
مجھ کو اب بھی تیری اُمید کہاں چھوڑتی ہے
آؤ دیکھو میرے چہرے کے خدوخال کو اب
مان جاؤ گے محبت بھی نِشاں چھوڑتی ہے
اس کے لفظوں کی کرامات بتاؤں تم کو
دل پہ لگتے تھے تو آنکھوں سے نکل آتے تھے.
کام آ کر بھی تو ہر شخص کے تنہا ہونا
میں نہ کہتا تھا کہ اچھا نہیں اچھا ہونا
ٹال دیتا ہوں بہانے سے سبھی لوگوں کو
مجھ کو آیا نہ ترے بعد کسی کا ہونا
تیرے حصے کی محبت تو تجھے ملنی تھی
میرے ذمے تھا فقط اس کا وسیلہ ہونا
ہائے کس کرب سے کہتی تھیں وہ خالی آنکھیں
تم تو سمجھو گے مجھے تم تو مسیحا ہو نا
لاکھ بہتر ہے زمانے کی خبر رکھنے سے
ایک ہی شخص کے ہر دکھ سے شناسا ہونا
تیری یادوں کے سوا عُمر کے اس حصے میں
دل کا لگنا بھی کہیں یار، بڑا مشکل ھے _
ملال یہ ہے کہ ہم چاہ کے بھی نہ بنا سکے.
تمھارے ساتھ کسی شام چائے کا منظر.
کہاں سے وضاحت کروں میں اپنے غم محبت کی
بس اتنا جان جاؤ کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
اور جن سے محبت کی جائے انہیں حاصل نہ کرنے کے بعد انکا برا نہیں سوچا کرتے کیونکہ یہ محبت کی توہین ہے۔
مشروط تیرے وصل سے میرا وصال هے
یعنی تُو میرے ہاتھ جو آیا ، تو میں گیا
اس بار زندگی کا تصادم هے جاں سے
اِس بار اپنی جاں کو بچایا ، تو میں گیا
جو وقت کی دھارا کا نہ سمجھے ہے اشارا
ایسوں کو سدا موت نے پھر گھیر کے مارا
فرعون نما جتنے بھی جس وقت بھی آۓ
قدرت نے کبھی جلد کبھی ٹہر کے مارا
نور ہی نور سے مکھڑے پہ وہ نوری آنکھیں
اس کے انجیل سے چہرے پہ زبوری آنکھیں
چھوڑ آیا ہوں کسی آنکھ میں بینائی کو
اور بچا لایا ہوں چہرے پہ ادھوری آنکھیں
ایک جادو ہے سبھی کا کئی منتر، لیکن
سبز گوں ہیں کہی نیلی کہی بھوری آنکھیں
اسے پہلو میں بیٹھا کر اسے تکنے کا نشہ
حالت بگاڑ ، شور مچا ، توڑ کوئی شئے.
جیسے بھی تجھ کو ٹھیک لگے ، دکھ بیان کر.
اے مُحبت کی طرف کِھینچتے پیارے لوگو
ہم نے چھوڑی ہے یہ پوشاک پُرانی کر کے۔
دھـــرا ہی کیا ہے میـــرے پاس نذر کرنے کو
تیرے حُـضور میــری جـان، میری جـان کے بـــعد۔
دل اس کے تغافل پہ بھی صدقے جائے
اس پہ جچتا هے میری ذات کا منکر ہونا "!
چراغ دل کا، مقابل ہوا کے رکھتے ہیں
ہر ایک حال میں تیور بَلا کے رکھتے ہیں
ہمیں پسند نہیں جنگ میں بھی مکاری
جسے نشانے پہ رکھیں بتا کے رکھتے ہیں
دُنیا میں دِل لگی کا مزہ ،،،،، دِل لگی سے ھے
آئے نہ جو کسی پہ ، وہ دوزخ میں جائے دِل
نَازک تھے اِس قَدر کہ گُل تَر سے مَرگئے
ہم تہمتوں کے ایک ہی پتھر سے مَرگئے,
معلوم کر رہا تھا زمانہ___ جوازِ مَرگ
اپنوں نے کہہ دیا کہ مقدر سے مَرگئے.
میرے لہو سے وضو، اور پھر وضو پہ وضو،
ڈرا ہوا ہوں زمانے،تیری نماز سے میں_!!
کیسے سنبھال پائیں گے خستہ بدن کی راکھ
ہم لڑتے لڑتے تھک گئے ہیں اپنے ہی بخت سے
جہاں محبت ہو جا کے پوچھو
کہ جس کو ملنا تھا کب ملا ہے
جہاں بھی دل ہو اُسے بتا دو
کہ ٹوٹ جانا لکھا ہوا ہے
جو ٹوٹ جاؤ تو کیا ہوا دل
تو لاڈلا ہے سنبھال لیں گے
غم تو جلنے ہیں شکمِ دل سے
جگر کے ٹکڑے ہیں پال لیں گے
مگر یہ جینے کی آبرو ہے
کہ تیرے بن کوئی جی رہا ہے
اس سے کہنا کہ جاتے جاتے
وہ مجھ کو جینا سیکھا گیا یے
بچھڑ کے رہنا تھا اس کی مرضی
یہ دل کے مالک کا فیصلہ یے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain