دل لگائیے لیکن خالق سے
مخلوق تو ویسے بھی وفا کے لائق نہی
بڑے جتن سے کمائی ہوئی ہے تنہائی
دلِ تباہ دھڑک کر اِسے تباہ نہ کر !!!
یہ شاعری نہیں سینے کے زخم ہیں سارے
تُو میرا درد سمجھ یار واہ واہ نہ کر
وہ شام کچھ عجیب تھی یہ شام بھی عجیب ہے
وہ کل بھی پاس پاس تھی وہ آج بھی قریب ہے
جھکی ہوئی نگاہ میں کہیں میرا خیال تھا
دبی دبی ہنسی میں اک حسین سا گلال تھا
میں سوچتا تھا میرا نام گنگنا رہی ہے وہ
نہ جانے کیوں لگا مجھے کہ مسکرا رہی ہے وہ
میرا خیال ہے ابھی جھکی ہوئی نگاہ میں
کھلی ہوئی ہنسی بھی ہے دبی ہوئی سی چاہ میں
میں جانتا ہوں میرا نام گنگنا رہی ہے وہ
یہی خیال ہے مجھے کہ ساتھ آ رہی ہے وہ
وہ شام کچھ عجیب تھی
اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اس پھول کی طرح رکھیں جو راستے کے کنارے ٱگتا ہے
جسے نہ کسی نے بویا ہوتا ہے نہ ہی راہگیر اسے پانی دیتا ہے اللہ تعالیٰ ہی اس پھول کا خیال رکھتا ہے
"دنیا کھاری پانی کے مانند ہے جتنا زیادہ پیا جائے،
اتنی ہی پیاس بڑھتی جاتی ہے"
میں کچھ نہ کہوں اور یہ چاھُوں ، کہ مِری بات
خوشبو کی طرح اُڑ کے ، تِرے دل میں اُتر جائے
ذہنی مار اتنی بری ہوتی ہے کہ انسان دیمک کی طرح ختم ہوتا جاتا ہے اور کسی پہ کوئی الزام بھی نہیں آتا۔۔۔۔۔
ہم بیٹھ کر ویراں کسی گوشے میں
ھوا کو دکھ سنائیں گے اور تمہیں بھول جائیں گے
عمرِ دراز خضر کو کیوں ہو گئی عطا
یہ تو مجھے کسی کی محبت میں چاہیے
دو بول محبت کے نہیں ملتے
لیکن
اس دل کی تسلی کو
تیرا نام بہت ہے
مت دیکھ حسرت سے ان آنکھوں کو
ان آنکھوں میں ادھورے خوابوں کے سوا کچھ نہیں
محسن اس سے ملنا ہے تو دکھنے دو یہ آنکھیں،،
کچھ اور بھی جاگو کہ وہ شب خیز بہت ہے !!
ہاتھ کے زخم تو آرام سے مل جائیں گے
بات کے زخم کو کچھ دیر لگے گی یارو
جسم کی چوٹ پر مرہم تو کوئی رکھ دے گا
دل میں جو آگ لگی کیسے بجھے گی یارو
غیر کی خیر ہے اپنوں سے خدایا نہ ملے
درد ایسے کی دوا کیسے ملے گی یارو
خزاں کا رنج نہیں باغباں تو مخلص ہو
نہیں تو دل کی کلی کیسے کھلے گی یارو
خوف طوفان ہو اور دوست بھی سچا نہ ملے
کیسے کشتی وہ بھلا پار لگے گی یارو
میری رسوائیاں سینے میں چھپا کر رکھنا
ورنہ دنیا یہ بہت مجھ پہ ہنسے گی یارو
ابھی تو زرد موسم ہے رتیں بدلی تو سوچیں گے
کہ اپنی چاہتوں کے پھول کہاں ہم نے سجانے ہیں
سُنا رہا تھا کوٸ قِصہ اُداس لوگوں کا
پھیلتا جا رہا ہے فِتنہ اُداس لوگوں کا
سِسک سِسک کے رو کر کہہ رہا تھا وہ
کبھی نہ ختم ہو گا فِرقہ اُداس لوگوں کا
یہ شاعری پر کرتے ہیں واہ واہ لوگ ....
یہ ادا بھی تو ہے صدقہ اُداس لوگوں کا
ہنسی خوشی مسکان چین و سکوں قرار سب
ملتا تمھیں ہے یہ حصہ اُداس لوگوں کا
آنسو ، غم ، آہیں ، چیخ و پکار اور دَرد
سب سے اَلگ تھلگ ہے قصبہ اُداس لوگوں کا
آٶ انہیں اپنا لو یا زہر دے دو .....
ہو جاۓ تمام قِصہ اُداس لوگوں کا
یہ آرزو بهی بڑی چیز ھے ، مگر ہمدم ،
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں . .
دور رہ کر بھی
جو سمایا ہے میری روح میں
پاس والوں پہ وہ شخص کتنا اثر رکھتا ہوگا...
لے جاؤ_________اپنے جھوٹے وعدے
اگلے عشق میں تمہیں ضرورت پڑے گی۔
آتی تو ہوگی ذہن میں گزرے دنوں کی سوچ
کرتا تو ہوگا وہ مجھ یاد کبھی کبھی
دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب
میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain