یہ قدیمی یونانی بکاؤ مورخ کی سب چال ہے
ورنہ ساتوں عجوبوں کی فہرست میں
تیری دو یہ سمندر سی آنکھیں بھی تھیں.
زِندگی آپ کے اُس وصف کا اِمتحان لیتی ہے ،
جو آپ کے اندر موجود ہو ۔۔۔
میرے اندر مُحبّت تھی ۔
شب فراق کچھ ایسا خیال یار رہا
کہ رات بھر دل غم دیدہ بے قرار رہا
ترا خیال بھی کس درجہ شوخ ہے اے شوخ
کہ جتنی دیر رہا دل میں بے قرار رہا
خود اپنے دل میں خراشیں اتارنا ہوں گی
ابھی تو جاگ کے راتیں گزارنا ہوں گی
تیرے لئے مجھے ہنس ہنس کے بولنا ہو گا
میرے لئے تجھے زلفیں سنوارنا ہوں گی
تیری صدا سے تجھی کو تراشنا ہو گا
ہوا کی چاپ سے شکلیں ابھارنا ہوں گی
ابھی تو تیری طبیعت کو جیتنے کے لئے
دل و نگاہ کی شرطیں بھی ہارنا ہوں گی
تیرے وصال کی خواہش کے تیز رنگوں سے
تیرے فراق کی صبحیں نکھارنا ہوں گی
یہ شاعری یہ کتابیں یہ آیتیں دل کی
نشانیاں یہ سبھی تجھہ پے وارنا ہوں گی
یہ کیا کہ تری خوشبو کا صرف ذکر سُنوں
تو عکسِ موجۂ گُل ہے تو جسم و جاں میں اُتر
پھر منازل سے تعلق نہیں رہتا ان کا
جن کے حصے میں محبت کے سفر آتے ہیں
قطرہ قطرہ جیسے دھڑکن کی صدا ہو،
بارش تو جیسے محبت کی اک ادا ہو۔
جس دن تم خواب دیکھنا چھوڑ دو گے، اس دن تمھاری کہانی ختم ہو جائے گی۔ خواب دیکھو، لڑو، اور جیتو
جس طــــــرف بزم میں وہ آنکــــــھ اٹھا دیتے ہیں
دلِ عشــــــاق میں ہلــــــچل سی مچا دیتــــــے ہیں
جام و مــــــینا ہی پہ موقوف نہــــــیں ان کا کــــــرم
موج مــــــیں آئیں تو آنکــــــھوں سے پلا دیتــــــے ہیں
میرے کمرے کی کھڑکی پہ بارش کی بوندوں کا کمال ہے
ہا میری حس جمال ہے کہ ہر تصویر میں تم ہی بنتی ہو
مختصر ہے شرح ہستی اے جگرؔ
زندگی ہے خواب، اجل تعبیرِ خواب ...
اک درویش کی دعا سے نکلا ہوا اثر ہوں میں
پھر بھی تجھے راس نہ آیا تو تیری قسمت ہے
دو طرفہ محبت کے لئیے دل چاہیے لیکن یک طرفہ محبت کے لئیے جگر چاہیے ہوتا ہے
ہم نے مانا کہ رپلائے نہ کرو گی تم لیکن
ٹرائی کرتے رہیں گے ہم بھی بلاک ہونے تک
مسافِر عِشق کا ہوں ________میری منزِل مُحبّت ھے۔۔۔
تیرے دِل میں ٹھہر جاؤں_________اگر تیری اِجازت ھے۔۔۔
دنیا کو خبر کیا میرے ذوقِ نظر کی
تم میرے لیے رنگ ہو،خوشبو ہو ،ضیا ہو
#Bulbul
اگر تیری یاد کا کوئی مــــــــــــــــیٹر ہوتا
تو سب سے زیادہ بل ہـــــــــــــــــمارا ہوتا
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
تم طلب کی وہ حد ہو جسکے آگے
سب کچھ بے معنی ہے...!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain