روشن جمال یار ســــــے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتــــــش گل سے چمن تمام.!!
دیکھو تو چشم یــــــار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظــــــر میں ہوئی انجمن تمام.!!
الفت کے سارے دانت میرے دل پہ دیکھ کر
لکھا میرے طبیب نے ناچار ......... "مرحبا"
کہ خلیل چھوڑ دو یہ دسمبر کا رونا
دل تو ہر مہینے میں توڑے جاتے ہیں
شام ڈھلنے سے ذرا پہلے ہی ڈھل جائیں گے!
ہم کہ دانستہ کہانی سے نکل جائیں گے!!
ہم نے موسم پہ یقیں باندھ لیا، جانتے تھے!
لوگ تو لوگ ہیں لازم ہے بدل جائیں گے!!
تم نے وہ آنکھیں نہیں دیکھیں وگرنہ تم بھی
ڈوب جانے کو کناروں پہ فضیلت دیتے.!!
کیا ہے جو رکھ دیں آخری داؤ میں نقدِ جاں
ویسے بھی ہم نے کھیـــل یہ ہارا ہُوا تو ہے
کون واقف ہے اُس ازیت سے جو پھول نے کتاب میں کاٹی_
پھر وہی یاد کی وحشت وہی تنہائی کی شام
کوئی مہماں بھی نہیں چائے پہ آنے والا
کس تعلق سے اسے گھر سے بُلانے جاتے
اس سے رشتہ ہی نہیں کوئی بتانے والا
کبھی نہ جائیں گے میخانے کی طرف ہرگز،
وہ رند جن کو میسر تمھاری آنکھیں ہیں
پاؤں دیکھے گی نہ تاخیر کا دکھ سمجھے گی
کیسے منزل کسی رہ گیر کا دکھ سمجھے گی
کب سماعت پہ کوئی حرف صدا اترے گا
کب وہ دستک مری زنجیر کا دکھ سمجھے گی
عکس کر دوں گا میں دیوار پر اپنا چہرہ
اور دنیا اسے تصویر کا دکھ سمجھے گی
ہنستے ہنستے ہی سنے گی وہ مری غزلوں کو
پھر مرے درد کو بھی میر کا دکھ سمجھے گی
کیسے اوراق بتائیں گے کہانی میری
ڈایری کیوں مری تحریر کا دکھ سمجھے گی
میں وراثت میں ملا تاج محل ہوں اس کو
مجھ کو ہارے گی تو تسخیر کا دکھ سمجھے گی
مجھ کو بھولی ہے جو شہرت کو اثاثہ جانے
خود سے بچھڑے گی تو تشہیر کا دکھ سمجھے گی
پھر وہی یاد کی وحشت وہی تنہائی کی شام
کوئی مہماں بھی نہیں چائے پہ آنے والا
کس تعلق سے اسے گھر سے بُلانے جاتے
اس سے رشتہ ہی نہیں کوئی بتانے والا
یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
دیکھ اگر غور سے تو سب کمال تیرے ھیں
میرے دل پہ لکھے سب سوال تیرے ھیں
کیسے یقیں دلاؤں تجھ کو اے جاناں
اس دل میں سبھی خیال تیرے ھیں
کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہ اذیت
بھاتا نہیں خود ہم کو بھی آرام ہمارا
آگیا ہے فرق اس کی نظروں میں _________ یقینا.
اب وہ مجھے انداز سے نہیں اندازے سے پہچانتا ہے
اک گہرا سکوت بسا ہے مجھ میں
جیسے میں اندر سے خالی ہوں
اک خلا باقی ہےمجھ میں
مشروط تیرے وصل سے میرا وصال هے
یعنی تُو میرے ہاتھ جو آیا ، تو میں گیا
اس بار زندگی کا تصادم هے جاں سے
اِس بار اپنی جاں کو بچایا ، تو میں گیا ۰۰۰!
*دیکھ ساقی کیسے بستا ہے عشق وجود میں...*
*سلطنت میری ہے،رگ رگ پہ حکومت یار کی .
شدت اور بھی شدید ہوتی جا رہی ہے ۔
آپ سے محبت اور بھی مزید ہوتی جارہی ہے۔
بہت کچھ تجھ سے بڑھ کر بھی میسر ہے
نہ جانے پھر بھی کیوں تیری ضرورت کم نہیں ہوتی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain