ہم ہو چُکے ہیں ہجر کی لذت سے آشنا
اب آپ ہم سے وصل کی باتیں نہ کیجیے!!
عاشق مزاج لوگ ہیں سو دل کے ہیں غلام
ہم سر پھروں سے عقل کی باتیں نہ کیجیے!!
اس سے بچھڑ کے ہوش سلامت رہے مگر
ہم راستوں سے گھر کا پتہ پوچھتے رہے
ہے فقط شوق ہمیں دِل کے روگ لینے کا
بھلا اب اس زمانے میں, عشق ہوتا ہے؟
جو کبھی لفظِ محبت پہ مسکراتے تھے
اب وہ ہنستے ہوئے روتے ہوں, ایسا ہوتا ہے؟
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
میری نگاہ شوق سے ہر گل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے
ساغرؔ کسی کے حسن تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
عشق کا سر نہاں جان تپاں ہے جس سے
آئیے عرض گزاریں کہ نگار ہستی
زہر امروز میں شیرینی فردا بھر دے
وہ جنہیں تاب گراں باری ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
تجھے سوچیں تو سوتے کہاں ہیں
ہم اتنے بے ادب ہوتے کہاں ہیں
بیاں کرتے بھی ہیں تو دل کی حالت
یہ آنسو آنکھ کے ہوتے کہاں ہیں
"پھول گواہ ہے اکثر توڑے وہی جاتے ہیں جو اچھے ہوتے ہیں."
اب آسمان سارا مری دسترس میں ہے
انگلی اٹھا کسی بھی ستارے کی بات کر
اب بھی آجاتا ہے میرے خیالوں میں وہ
اب بھی لگتی ہے حاضری اس غیر حاضر کی ۔۔
فائدہ کــوئی نـــــــــظر آتا نہـــــــیں جینے میں
یعنی مر جانے میں اب کوئی خسارہ بھی نہیں
نگاہ شوق نے مجھ کو یہ راز سمجھایا
حیا بھی دل کی نزاکت پہ ضرب کاری ہے
اس کو یہ زعم کہ وہ حسن کا مصور ہے
ہمیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے
سلسلے جو وفا کے رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
حوصلے انتہا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رکھتے ہیں !!!
اُن کے دامن بھی جلتے دیکھے ہیں ۔۔۔۔۔
وہ جو ۔۔۔۔۔۔۔۔ دامن بچا کہ رکھتے ہیں !!!
ہم نہیں ہیں شکست کے قائل !!
ہم سفینے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلا کے رکھتے ہیں !!!
جس کو جانا ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلا جائے !!
ہم دیئے سب بجھا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھتے ہیں !!!
ہم بھی کتنے عجیب ہیں، محسن !!!
درد کو دِل بنا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھتے ہیں !!!
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
یہ قناعت ہےاطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
سورج افق کے سینے میں تھک کر اتر گیا
یہ دن بھی ایک پھول تھا آخر بکھر گیا
میرے گلے نہیں لگا وہ چاند جیسا شخص
میرے لئے تو عام سا دن تھا گزر گیا
اور پھر ایک دن انسان کسی بہت پرانے پیڑ جیسا ہو جاتا ہے بلکل خالی، ویران، کھوکھلا اور بے رنگ
دریا کہ پوچھ بیٹھا تھا پیاسوں سے ان کے نام !
یہ واقعہ تو دشت کا قصہ ہی بن گیا !!!
تھوڑا پرے کیا تو جدا ہو گیا وہ شخص !
بخیہ بنا رہے تھے کہ پردہ ہی بن گیا !!!
آہیں گرفتِ ساز میں لائے اور ایک شام !
سینے پہ ہاتھ مارا تو نوحہ ہی بن گیا !!!
وہ بھی ملــــتا گلے جو تو خُــــــوشی عید کی تھی
کوئی رہ رہ کــــــر نصیر آج بہت یــــــاد آیــــــا
کچھ چوڑیاں خرید کے رکھ لی ہیں تیرے لیے
کبھی جو عید ساتھ کی ____ تو پہنا دوں گا
" ہم دِلوں اور گھروں سے نِکلے ہُوئے لوگ ہیں ۔۔۔ قِسمت ہمیں جہاں لے جائے چل پڑیں گے! ۔ "
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain