مژدہ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ھے مجھ پر
ان میں اک رمز ھے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
تم جب آؤ گی ، تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ عہد وہ ہے کہ دانشورانِ عہد پہ بھی
منافقت کی شبیہوں کا خوف طاری ہے
نمازِ خوف کے دن ہیں کہ ان دنوں یارو
قلندروں پہ فقیہوں کا خوف طاری ہے
اسی ہوس میں ہیں ہر دم یہ دشمنانِ جمال
جو سوئے رنگ اٹھے اس نظر کو گُل کر دیں
جو بس چلے کہیں ان کا تو یہ فضا بیزار
شفق کا رنگ بجھا دیں سحر کو گُل کر دیں
ملازمانِ حرم نے وہ تنگیاں کی ہیں
فضائیں ہی نہ رہیں رقصِ رنگ و بو کے لیے
یہ انتظام تو دیکھو خزاں پرستوں کا
بچھائی جاتی ہیں سنگینیاں نمو کے لیے
غرورِ جبہ و دستار کا زمانہ ہے
نشاطِ فکر و بساطِ ہنر ہوئی برباد
فقیہ و مفتی و واعظ پہ حرف گیر ہو کون؟
یہ ہیں ملائکہ اور شہر جنتِ شداد
گزر گئے پسِ در کی اشارتوں کے وہ دن
کہ رقص کرتے تھے مے خوار رنگ کھیلتے تھے
نہ محتسب کی تھی پروا نہ شہرِ دار کی تھی
ہم اہلِ دل سرِ بازار رنگ کھیلتے تھے
دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر
سب کا رخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف، بنوں کی طرف
اپنے گلوں کو لے کے چروا ہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دل ناکام! میں کہاں جاؤں؟
اجنبی شام! میں کہاں جاؤں؟
وہ میرا خیال تھی، سو وہ تھی
میں اس کا خیال تھا، سو میں تھا
اب دونوں خیال مر چکے ہیں
La plus belle des ruses du diable est de vous persuader qu'il n'existe pas.
- post removed -
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain