وہ لوگ تو آنکھوں سے بھی دیکھا نہیں کرتے
جو دل کے دریچوں کو کبھی وا نہیں کرتے
ایسی ہی کشاکش میں الٹ جاتی ہے دنیا
سنبھلے نہ اگر دل تو سنبھالا نہیں کرتے
رکھتے ہیں محبت کو تغافل میں چھپا کر
پروا ہی تو کرتے ہیں جو پروا نہیں کرتے
ہوگا کوئی ہم جیسا کہاں ہجر گزیدہ
ماتم بھی تو تنہائی کا تنہا نہیں کرتے
اس چاک گریبانی پہ سمجھانے لگے سب
دھاگے بھی یہ کہتے ہیں کہ الجھا نہیں کرتے
کہتے ہیں سبھی سست مگر آپ کہیں کیوں
کہہ دیں جو کبھی آپ تو ہم کیا نہیں کرتے
اخترؔ کو برا کہتے کوئی بات نہیں تھی
غالبؔ کو برا کہتے ہو اچھا نہیں کرتے