"جی امی جان کہیں میں سن رہی ہو"
ماہی کی پریشان سی آواز آئ
"بیٹا ہم نے تمہاری نسبت بچپن سے ہی شیری کے ساتھ طے کردی تھی اور یہ بات تم دونوں کی تعلیم مکمل ہونے تک مخفی رکھی تھی اب اگر تمہیں کوئ اعتراض نہ ہو تو ہم اسجمعے کو تمہارا اور شیری کا نکاح کر دے"
سعدیہ بیگم نے تمام راضی کھول دیے اور وہ حیران ہو کر سب کچھ سن رہی تھی
ماہی اپنے کمرے میں موبائل پر مصروف تھی وہ بڑے مگن انداز میں ناول پڑھ رہی تھی ک اچانک اسکے کمرے کا دروازا بجا
"اندر آجائیں "
ماہی نے آنے والے کو آواز دی
اندر آنے والی ہستی سعدیہ بیگم تھیں
"بیٹا تم مصروف تو نہیں"
"ارے نہیں نہیں امی آپ آئیں نا"
ماہی فوراً بولی
"ماہی میں تم سے ایک بہت ضروری بات کرنے آئ ہو"
"جی امی بولی "
" بیٹا ہم سب بڑوں نے تمہاری زندگی کیلئے ایک فیصلہ کیا ہے اسمیں گھر کے سب بڑوں کی مرضی شامل ہے انکار کی گنجائش تو نہیں ہے مگر پھر بھی تم سوچ لو"
"ٹھیک کہتی ہیں آپ امی جان ہمیں اب کوئ قدم اٹھا لینا چاہیے"
فرزانہ بیگم بولی
"ہاں تو بس طے ہوا اسی جمعے کو دونوں کا نکاح رکھ دیتے ہیں"
سعدیہ بیگم بولی
قسط نمبر 4
فائقہ کے جانے کے بعد سب گھر کے بڑوں کی محفل جمی ہوئی تھی سکندر صاحب کا خیال تھا کہ جیسے آج ماہی کیلئے احمد کا تختہ آیا ہے کل کو کسی اور کا بھی آسکتا ہے اسلئے ہمیں کوئ فیصلہ کر لینا چاہیے
"بیٹا میرا خیال ہے کہ شیری کے جانے ڈے پہلے ماہی اور شیری کا نکاح کردینا چاہیے"
بی جان کی آواز کمرے میں گونجی
فایقہ بڑے آرام سے کہہ گئ تھی وہ کسی بھی حال میں اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتی تھی
"معاف کیجئے باجی ایسا ممکن نہیں"
سکندر صاحب بولے تھے
شیری اس تمام گفتگو میں خاموش رہا تھا مگر دل اسکا بہت بے چین تھا جسے اپنا ہمسفر بنانے کی خاہش اسکے دل نے ظاہر کی تھی وہ تو اسکی تھی وہ بہت خوش تھا اپنے بڑوں کے فیصلے پر وہ بھی شہریار سکندر خان تھا آخر سب پر یہ ظاہر ہونے دیتا
"فایقہ یہ کیا کہہ رہی ہو دماغ تو ٹھیک ہے تمھارا"
بی جان کی غصے سے بھری آواز آئی تھی جبکہ حمدان صاحب اور سکندر صاحب کے چہرے کے تاثرات بھی ایسے ہی تھے
" یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ فایقہ باجی آپ تو جانتی ہیں ماہی کی منگنی بچپن سے ہی شیری کے ساتھ طے ہے اور بچوں کی تعلیم مکمل ہونے تک ہم نے یہ بات مخفی رکھنی تھی اور یہ فیصلہ آپ کے سامنے ہی تو ہوا تھا پھر آپ ایسے کیسا کہہ سکتی ہیں"
حمدان کی غصے سے بھری آواز نکلی تھی
سب لوگ شوکڈ تھے کہ فایقہ بھلا سب کچھ جاننے کے باوجود بھی ایسا کہہ رہی تھی
ماہی تو گھبرا کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی بھلا اسکی پھپھو اپنے نشئ بیٹے کے ساتھ اسکی شادی کیسے کر سکتی تھیں
"امی جان آج میں 1 خاص مقصد سے آئی ہو"
فایقہ کی آواز خوشی سے تیز تھی
"ہاں بولو بیٹا"
بی جان بھی انکی بات کا مقصد سمجھ چکی تھیں
" حمدان بھائی آج میں آپ سے آپ کی سب سے قیمتی چیز یعنی ماہی کو اپنے بیٹے اہمد شاہ کیلئے مانگنے آئ ہو"
وہ گھر میں اپنے اکلوتے ہونے کا فایدا اٹھاتی تھی ماہا کو سب پیار سے ماہی اور شہریار کو شیری کہہ کے بلاتے تھے
فائقہ پھپھو کا 1 بیٹا تھا احمد شاہ اور ایک بیٹی تھی یسرا شاہ
فائقہ پھپھو کے یہاں آنے کا مقصد شیری اچھی طرح سمجھ گیا تھا پر ماہی اس بات سے انجان تھی
قسط نمبر 3
خورشید بیبی یعنی بی جان جوانی میں ہی بیوہ ہو گئ تھیں انکے 3 بچے تھے سکندر علی حمدان علی اور فائقہ علی
سکندر اور حمدان میں شروع سے ہی بڑا پیار تھا اور شادی کے بعد بی اپنی بیوی بچوں سمیت اکٹھے رہتے تھے
سکندر علی خان کے 3 بیٹے تھے شہریار سکندر علی خان اور 2 جڑواں بیٹے ارمان سکندر علی خان اور ارحان سکندر علی خان جبکہ حمدان صاحب کی 1 بیٹی تھی ماہی حمدان علی خان
Episode 2 completed baki Kal post kro gi inshallah
آج ماہی اور شیری کی اکلوتی پھپھو آئ تھیں
"اسلام علیکم فائقہ پھپھو"
اسنے کمرے میں آتے ہی سلام کیا تھا
"ارے واہ آج تو پورا خاندان آیا ہوا
پھپھو میں آپ کو اتنا یاد کر رہی تھی اور فون بھی کرنے والی تھی"
" ارے ہاں میری بچی مجھے تو آنا ہی تھا"
انہوں نے معنی خیز بات کی تھی جسکی ماہی کو تو سمجھ نہ آئ پر شیری اپنی پھپھو کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا جو سلام سے زیادہ کسی سے بات نہیں کرتی تھیں اور آج ماہی کو اپنے اتنے قریب بٹھایا تھا کچھ تو الگ تھا آج انکے رویے میں جو شیری سمجھ نہ پایا تھا تبھی دل میں بے چینی ہوئ تھی
اسے تو اسنے کہہ دیا تھا پر خود اپنے دل کی بے چینی پر حیران تھی شیری کے دور جانے کا خیال ہی اسے تکلیف دے رہا تھا اور دوسری طرف شیری کا بھی ایسا حال تھا پر وہ کسی پر ظاہر نہیں کر رہا تھا
"آف ماہی میں کوئ دنیا چھوڑ کر نہیں جا رہا کیا تم میری خوشی میں خوش نہیں؟"
ماہی نے تڑپ کر اسکو دیکھا تھا اور اس ایک لمحے بعد وہ اسکی آنکھوں میں نہ دیکھ پائ تھی اور سنبھلتے ہوۓ بولی
" ہاں چلو اور بکواس تھوڑی کم کیا کرو میں تو بس ٹھنڈک ہوا میں سانس لینے آئ تھی کم سے کم تم سے کچھ دنوں کیلئے جان تو چھوٹ جائے گی"
ماہی؟ماہی؟ کہاں ہو یار؟
شیری اسے گھر کے ہر کمرے میں ڈھونڈ چکا تھا
اسکے ملنے کی آخری امید چھت تھی اور وہ وہی تھی
"ماہی حد کرتی ہو یار کب سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہو اور تم یہاں ہو نیچے سب بلا رہے ہیں"
ماہی نے بڑی مہارت سے اپنے آنسو صاف کیے تھے پر سامنے شیری تھا جو اسکو اس سے زیادہ جانتا تھا
بڑا عشق عشق توں کرنا ایں
کدی عشق دا گنجل کھول تے سہی
تینوں مٹی وچ نہ رول دیوے
دو بول پیار دے بول تے سہی
اے دنیا والے ظالم نے
آپا اک دنیا لب لئ جتھے دووووورررررر دووووورررررر تک کوئی نہ ہوۓ
شادی پر فیورٹ فنکشن؟
کمرے میں تھوڑی دیر خاموشی رہی تھی شاید سب اس نئ ملنے والی خوشی میں کھو گئے تھے
کچھ دیر بعد بی جان کی آواز آئی اللہ تجھے کامیاب کرے میری جان اور ساتھ ہی اسکا ماتھا چوما
پھر فرزانہ بیگم بولی تھی میرا شیر بیٹا اللہ تجھے کامیابیاں دے
سب نے اسے باری باری مبارکباد دی لیکن ماہی وہاں سے غائب تھی اور شیری نے اس بات کو محسوس بھی کیا تھا
مجھے یقین نہیں ہو رہا شیری کی خوشی سے بھری آواز آئی تھی
پہلے تو سب کو یقین نہ ہوا لیکن شیری پھر بولا جی امی جان ابو جان میں سچ کہہ رہا ہو دیکھا چچی جان آج میرا خواب پورا ہو گیا چچا جان میری دعائیں رنگ لے آئی ماہی ارحان ارمان یقین آرہا ہے تم؟لوگوں کو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain