اب کے برس ساون میں رو کر دل کے زخم چھپاۓ گے
دل میں جلے ہیں جو انگارے شائید وہ بجھ جائیں گے
دنیا کے سہارے بہت کمزور ہیں یا رب مجھے اپنی ذات کے سوا کسی کا محتاج نہ کرنا
چڑھا منصور سولی پر جو واقف تھا وہی دلبر
ارے ملا جنازہ پڑھ میں جانو میرا خدا جانے
لذت غم سے آشنا ہو کر
اپنے محبوب سے جدا ہو کر
دل کہیں جب سکوں نہ پاۓ گا
تم کو اک شخص یاد آۓ گا
جب تک سہتے رہو گے یہ دنیا اور اسکے لوگ درد دیتے رہیں گے
ابھی تک میری روح بے چین ہے ابھی تک میرا دل ہے بیتاب سا
یہ مانا کہ تم سامنے ہو میرے مگر مجھ کو لگتا ہے اک خواب سا
کہاں ہو تم چلے آؤ محبت کا تقاضہ ہے
غم دنیا سے گھبرا کر تمہیں دل نے پکارا ہے
شوق ہی نہیں رہا خود کو سہی ثابت کرنے کا
جس نے جیسے سمجھ لیا ویسے ہی ہیں ہم
اداسی کا سبب پوچھتے ہیں لوگ دل کو جلا کر مزہ لوٹتے ہیں لوگ
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
بہت تکلیف دیتے ہیں اپنوں کے بدلے ہوۓ لہجے اور روئیے
ذندگی اتنی سستی تو نہیں جو بے قدروں کے حوالے کی جاۓ
یہ دل جو رہا ہے تو کہیں سے صبر مل جاۓ کوئ امید ٹوٹے تو کیا کریں
اگر شک دل میں آ جاۓ بھروسے ٹوٹ جاتے ہیں
بھروسے ٹوٹ جاۓ تو
تو اپنے روٹھ جاتے ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain