میرے دشمن تیرا احسان ہے مجھ پر ورنہ
اپنے عیبوں پے میرا دھیان کہاں تھا پہلے
نام اور پہچان بھلے ہی چھوٹی ہو
مگر خود کی ہونی چاہیے
پہچان ایسے ہی نہیں بن جاتی
ہزاروں مخالف کرنے پڑتے ہیں
کچھ وقت لگے گا
اس کے بعد وقت ہماری مثال دے گا
انداز تھوڑا الگ رکھتا ہو
اس لیے لوگوں کو غلط لگتا ہوں
برے ہی ٹھیک ہیں ہم
اچھے بن گے تو کون کرے گا باتیں ہماری
منافق جب کس کو گرانا چاہتا ہے۔
تو دھکا نہیں دیتا بلکہ اس کو سہا را دیتا ہے
مانگی ہوئی محبت زہر سے بھی بدتر ہوتی ہے۔
کچھ راستوں پر پاؤں نہیں، دل تھک جاتے ہیں
خود پہ بیتی تو روتے ہو سسکتے ہو
وہ جو ہم نے کیا، کیا وہ عشق نہیں تھا
تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
تم سے پہلے بھی کسی نے کھو دیا تھا مجھے
تم سے پہلے بھی میری انا سے ٹکرایا تھا کوئی
“اٹھتی ہی نہیں نگاہ کسی اور کی طرف❤
اک شخص کا دیدار مجھے پابند کر گیا💕💯