یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے،
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے.
یہ جناب شیخ کا فلسفہ جو سمجھ میں میری نہ آ سکا،
جو وہاں پیؤ تو حلال ہے جو یہاں پیؤ تو حرام ہے.
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو،
یہاں کم نظر کا گزر نہیں یہاں اہلِ ظرف کا کام ہے.
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے،
مگر اب اس میں کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے.
تجھے اپنے حُسن کا واسطہ میرے شوقِ دید پہ رحم کھا،
ذرا مسکرا کر نقاب اُٹھا کہ نظر کو شوقِ سلام ہے.
نہ سنا تو حور و قصور کی یہ حکایتیں مجھے واعظا،
کوئی بات کر درِ یار کی درِ یار ہی سے تو کام ہے.
نہ تو اعتکاف سے کچھ غرض نہ ثواب و زہد سے واسطہ،
تیری دید ایسی نماز ہے نہ سجود ہے نہ قیام ہے.
جب کہا تھا محبت گناہ تو نہیں
پھر گناہ کے برابر سزا کیوں ملی
زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو
جان لے کر کہو گے کے جیتے رہو
پیار جب جب زمیں پر اُتارا گیا
زندگی تجھ کو صدقے میں وارا گیا
پیار زندہ رہا مقتلوں میں مگر
پیار جس نے کیا ہے وہ مارا گیا
حد یہی ہے تو حد سے گزر جائیں گے
عشق چاہے گا چپ چاپ مر جائیں گے
لوگ محبت میں کیا کچھ نہیں کرتے
ہم نے تو صرف یہ چاہا کہ تم چاہو مجھے
پہلے آسمان کے ستاروں کے طرح تھے تم
اب تم فریاد ہو گئے ہو
اب تم مجھے یاد نہیں آتے
اب تم مجھے یاد ہو گئے ہو