کسی کو حاجت نہیں ہے
کہ رفتگاں کا عذاب جھیلے
پرانی بازی کو پھر سے کھیلے
کسی کے ہونے کو اپنے جینے کی شرط کر لے
اک روز کوئی آئے گا لے کر کے فرصتیں
اک روز ہم کہیں گے ضرورت نہیں رہی
کتنا غور سے دیکھا ہوگا میری آنکھوں نے تمہیں
کہ تمہارے بعد کوئی چہرہ حسین ہی نہیں لگا