تیرے عشق کی داستان جب سنی میں نے
تیرے اشکوں کے بہنے کا سبب معلوم ہوا
اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
نہ کسی آہ کی آواز ، نہ زنجیر کا شور
آج کیا ہوگیا زنداں میں کہ زنداں چپ ہیں
دِل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
اِس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
تھیں جن کے دَم سے رونقیں شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا
بانہوں میں جب لیا اُسے نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا مجھے نادان تو نہ تھا
کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ نہ پوچھیے
یارو سفر حیات کا آسان تو نہ تھا
رسماً ہی آ کے پُوچھتا فاروق حالِ دل
کچھ اِس میں اُسکی ذات کا نقصان تو نہ تھا
سوز تو نہیں رہا ساز حیات بھی
پائل خیال یار کی چھنکاتے کٹ گئ
asslam alaikum all kaise hain sab
Asslam alaikum kaise Hain aap sab
Asslam alaikum
Kaise Hain aap sab
Sab k janu manu dhanya podeene Hain aur mere dost wo bhi kameene
تھی کسی شخص کی تلاش مجھے
میں نے خود کو ہی انتخاب کیا
Follow to follow
Follow to follow all please
اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں
دَرپیش صبح و شام یہی کَشمکش ہے اب
اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں
اِس طرح پھیر پھیر کہ باتیں نہ کیجیئے
لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں
مُمکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ مُنافقت
دُنیا تیرے مزاج کا بَندہ نہیں ہوں میں
امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں
آگیا اُس کا تصوّر، تو پُکارا یہ شوق !
دِل میں جَم جائے الٰہی یہ خیال اچّھا ہے
تیرے ہجر کا یہ عالم ہے
تمہارے بن ادھورا رہ گیا ہوں
اک دل کی بات تھی تم سے کہنی
اپنی تصویر میں وہ کہہ گیا ہوں
اک ضرب تھی جو دل پہ آئی
وہ درد بھی میں سہہ گیا ہوں
ساحل کی آنکھوں میں آج جاناں
میں ایسا ڈوبا کہ بہہ گیا ہوں
#غمزدہ
مجھے نہ کوئی فالو کر رہا ہے نہ کوئی کمنٹ کر رہا ایسا کیوں ہے
ہم تیری راہ کی دھول ،کہاں یاد رہینگے
اے دل ہے تیری بھول ، کہاں یاد رہینگے
انکے قریب ہوش و خرد کو دخل نہیں
ہم کو بھی یہ اصول کہاں یاد رہینگے
بچھڑے ہووں کے واسطے کب تک جلے کوئی
گئے موسموں کے پھول کہاں یاد رہینگے
چل تلخ سہی روپ مگر صدق بات ہے
کر لے ہجر قبول کہاں یاد رہینگے
# غمزدہ
اکتوبر لوٹ آیا ہے جاناں
مگر ابتک تم نہیں لوٹے🍁
سنو....!
اکتوبر لوٹ آیا ہے
حقائق مسترد کردوں، میں بس اِمکان کو دیکھوں
سفر میں ساتھ ہو تم، کس لیے سامان کو دیکھوں
مجھے بخشا گیا تھا عشق اور میں خاندانی ہوں
سو اب ممکن نہیں کہ فائدے نقصان کو دیکھوں
ﺍﺏ ﺍﮎ ہجوﻡِ ﺷﮑﺴﺘﮧ ﺩِﻻﮞ ہے ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ
ﺟﻨﮭﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﻣِﻼ , ﻭﮦ ہم ﺳﻔﺮ ہماﺭﮮ ہوئے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain