اسے کہنا ستمبر جا رہا ہے ! شامیں سہانی لگنے لگی ہیں دھوپ کی تپش ٹھنڈی ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ پرندوں کی ہحرت ۔۔۔۔ پَر تول رہی ہے دل بے وجہ اداس رہنے لگا ہے ۔۔۔۔۔ ہر ہر آ ہٹ پہ چونکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ انگوروں کے پتے لال ہوکے جھڑنے لگے ہیں بادل ، بارش ، کالی گھٹا شرارت چھوڑ چکی ہیں ہوا میں دھوپ کی آ میزش اور ساون کی نمی ہے گلاب تھک رہے ہیں ۔۔۔ رانی ، راجہ بھی آ نکھیں موندھ چکے ۔۔۔ موسمی پودے کیاریوں میں ڈھ رہے ہیں شاید نئی پنیریاں لگانے کا موسم آ گیا ہے ۔۔۔ کہ ستمبر جا رہا ہے ۔۔۔
کو تنہا ویرانوں میں رہنے دو وفا کی باتیں خیالوں میں رہنے دو حقیقت میں آزمانے سے ٹوٹ جاتا ہے دل یہ عشق محبت کتابوں میں رہنے دو دل بھر جانے کے بعد تنہا چھوڑ جاتے ہیں لوگ میں تنہا ہی ٹھیک ہوں مجھے تنہائیوں میں رہنے دو..!!🍂
وہ جذبوں کی تجارت تھی یہ دل کچھ اور سمجھا تھا اسے ہنسنے کی عادت تھی یہ دل کچھ اور سمجھا تھا مجھے اس نے کہا آؤ نئی دنیا بساتے ہیں اسے سوجھی شرارت تھی یہ دل کچھ اور سمجھا تھا ہمیشہ اسکی آنکھوں میں دھنک سے رنگ ہوتے تھے یہ اسکی عام حالت تھی یہ دل کچھ اور سمجھا تھا وہ میرے پاس بیٹھا دیر تک غزلیں میری سنتا اسے خود سے محبت تھی یہ دل کچھ اور سمجھا تھا میرے کاندھے پہ سر رکھ کے کہیں پہ کھو گیا تھا وہ یہ اک وقتی عنائیت تھی یہ دل کچھ اور سمجھا تھا مجھے وہ دیکھ کر اکثر نگاہیں پھیر لیتا تھا یہ در پردہ حقارت تھی یہ دل کچھ اور سمجھا تھا Good night