جس نے تین یا چار یا پانچ بیٹیوں کی پرورش کی اس کی کیا اہمیت ہو گی؟؟ ۔ بیٹیوں کی پیدایٔش پر گھنرایا نہ کریں۔انہیں والدین پر بڑا مان ہوتا ہے اور یہ بیٹیاں اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہیں۔۔
آپ نے تین دفعہ یہ واقعہ سنا اور اتنا روۓ کہ صحابہ کرام آپ کو دیکھ کر رونے لگ گۓ۔۔۔۔اور کہنے لگے اے دحیہ کیوں رلاتا ہے ہمارے آقا کو؟ ہم سے برداشت نہیں ہو رہا۔آپ نے حضرت دحیہ سے تین بار واقعہ سنا تو حضرت دحیہ کی رورو کر کویٔ حالت نہ رہی اتنے میں حضرت جبریل حاضر ہوۓ اور فرمایا۔۔یا رسول اللہ !۔۔۔اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے محبوب!دحیہ کو کہ دیں کہ وہ اس وقت تھا جب اس نے اللہ اور اس کے نبی کو نہیں مانا تھا۔۔اب مجھ کو اور آپ کو اس نے مان لیا ہےتو دحیہ کا یہ گناہ بھی ہم نے معاف کیا۔۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔جس نے دو بیٹیوں کی کفالت کی ان انہیں بڑا کیا انکے فرایٔض ادا کیۓ وہ قیامت کے دن میرے ساتھ اس جطح ہوگا جس طرح شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی آپس میں ہیں۔ ۔ جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اس کی یہ اہمیت ہے تو
آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے گیلی ہو گیٔ ۔ آپ نے فرمایا دحیہ ذرا پھر سے اپنی بیٹی کا واقعہ سناؤ۔۔اس بیٹی کا واقعہ جو مجھ محمد کے انتظار میں دنیا سے چلی گیٔ۔۔
گیٔ اور میں اس پر مٹی ڈالنے لگ گیا۔۔بچی ریت میں سے روتے ہوۓ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرے سامنے جوڑ کر کہنے لگی۔۔بابا میں نہیں ہوتی کھلونے۔۔بابا میں نہیں جاتی نانی کے گھر۔۔بابا میری شکل پسند نہیں آیٔ تو میں نہیں آتی کبھی آپ کے سامنے۔بابا مجھے ایسے نہ ماریں یا رسول اللہ میں ریت ڈالتا گیا۔۔مجھے اس کی باتیں سن کر بھی ترس نہیں آیا۔میری بیٹی پر جب مٹی مکمل ہو گیٔ اور سر رہ گیا تو میری بیٹی نے میری طرف سے توجہ ختم کی اور بولی۔اے میرے مالک میں نے سنا ہے کہ تیرا ایک نبی آۓ گا جو بیٹیوں کو عزت دے گا۔جو بیٹیوں کی عزت بچاۓ گا۔۔اے اللہ وہ نبی بھیج دے بیٹیاں مر رہی ہیں۔۔ پھر میں نے اسے ریت میں دفنا دیا۔حضرت دحیہ قلبی واقعہ سناتے ہوۓ بے انتہا روۓ یہ واقعی جب سنا دیا تو دیکھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا رو رہے ہیں ۔
یا رسول اللہ میں بچی کے سوالوں کا جواب ہی نہیں دیتا تھا۔وہ پوچھتی جا رہی تھی بابا کدھر چلے گۓ تھے؟کبھی میرا منھ چومتی اور کبھی بازو گردن کے گرد دے لیتی ہے۔لیکن میں کچھ نہیں بولتا۔ایک مقام پر جا کر میں نے اسے بٹھا دیااور خود اس کی قبر کھودنے لگ گیا۔۔۔۔آقا کریم دحیہ کی زبان سے واقعہ سناتے جا رہے ہیں اور روتے جا رہے ہیں۔میری بیٹی نے جب دیکھا کہ میرا باپ دھوپ میں کام کر رہا ہے۔۔تو اٹھ کر میرے پاس آیٔ اپنے گلے میں جو چھوٹا سا دوبٹہ تھا وہ اتار کر میرے چہرے سے ریت صاف کرتے ہوۓ کہتی ہے۔۔بابا دھوپ میں کیوں کام کر رہے ہیں ؟ چھاؤں میں آجایٔیں بابا یہ کیوں کھود رہے ہیں اس جگہ؟بابا گرمی ہے چھاؤں میں آجایٔں۔۔اور ساتھ ساتھ میرا پسینہ اور مٹی صاف کرتی جا رہی ہے لیکن مجھے ترس نہ آیا۔آخر جب قبر کھود لی تو میری بیٹی پاس آیٔ۔میں نے دھکا دے دیا وہ قبر میں گر
بابا مجھے نانی کے گھر لے کر نا رہے ہو؟بابا کیا مجھے کھلونے لے کر دینے جا رہے ہو؟بابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟دحیہ قلبی روتے جا رہے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔۔
فرماتے ہیں۔اے اللہ کے رسول میں نے بیٹی کو دھکا دیا اور جا کر بیوی سے پوچھا۔۔یہ بچی کون ہے؟بیوی رونے لگی اور کہنے لگی دحیہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔یا رسول اللہ مجھے زرا ترس نہ آیا میں نے سوچا کہ میں قبیلے کا سردار ہوں اگر اپنی بیٹی دفن نہ کیا تو لوگ کہیں گے ہماری بیٹیوں کو دفن کرتا رہا اور اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔۔حضرت دحیہ کی آنکھوں سے اشک زاروقطار نکلنے لگے۔۔۔یارسول اللہ وہ بچی بہت خوبصورت بہت حسین تھی۔۔میرا دل کر رہا تھا اسے سینے سے لگا لوں۔پھر سوچتا تھا کہیں لوگ باتیں نہ بنایٔں کہ اپنی بیٹی کی باری آیٔی تو اسے زندگی دفن کیوں نہ کیا۔میں گھر سے بیٹی کو تیار کروا کر نکلا تو بیوی نے میرے پاؤں پکڑ لیٔے دحیہ نہ مارنا اسے ۔دحیہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔میں نے بیوی کو پیچھے دھکا دیا اور بچی کو لے کر چل پڑا۔۔ رستے میں میری بیٹی کہا
اور مجھے کسی کام کی غرض سے دوسرے ملک جانا تھا۔میں نے جاتے ہوۓ بیوی کو کہا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اور اگر بیٹی ہویٔ تو اسے زندگی دفن کردینا۔دحیہ روتے جا رہے تھے اور واقعہ سناتے جا رہے تھے میں واپس بھت عرصہ بعد گھر آیا۔تو میں نے دروازے پر دستک دی۔اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی نے دروازے کھولا۔۔ اور پوچھا کون؟؟ میں نے کہا تم کون ہو۔تو وہ بچی بولی۔۔میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں۔آپ کون ہیں؟ دحیہ فرمانے لگے۔۔یا رسول اللہ میرے منھ سے نکل گیا۔۔اگر تم بیٹی ہو اس گھر کے مالک کی تو میں مالک ہوں اس گھر کا۔۔۔ یا رسول اللہ۔۔میرے منھ سے یہ بات نکلنے کی دیر تھی کہ چھوٹی سی اس بچی نے میری ٹانگوں سے مجھے پکڑ لیا اور بولنے لگی۔۔بابا بابا بابا آپ کہاں چلے گۓ تھے؟بابا میں کس دن سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔۔حضرت دحیہ قلبی روتے جا رہے ہیں اور
حضرت دح قلبی نے کہا۔۔یا رسول اللہ میں اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں۔اور ہمارے ہاں بیٹیوں کی پیدایٔش پر انہیں زندگی دفن کیا جاتا ہے۔میں کیونکہ قبیلے کا سربراہ ہوں اس لیٔے میں نے ستر گھروں کی بیٹیوں کو زندگی دفن کیا ہے۔۔آپ کا رب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔ اسی وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوۓ۔۔۔ یا رسول اللہ ۔۔۔اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اسے کہیں اب تک جو ہوگیا وہ ہو گیا۔۔۔اس کے بعد ایسا گناہ ک ھی نہ کرنا۔ہم نے معاف کر دیا۔ حضرت دحیہ آپ کی زبان سے یہ بات سن کر رونے لگے۔۔۔آپ نے پوچھا۔۔دحیہ اب کیا ہوا ہے؟؟کیوں روتے ہو؟ حضرت دحیہ قلبی کہنے لگے۔۔یا رسول اللہ میرا ایک گناہ اور بھی ہے جسے آپ کا اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔آپ نے فرمایا دحیہ کیسا گناہ بتاؤ؟ حضرت دحیہ قلبی فرمانے لگے۔۔یا رسول اللہ میری بیوی حاملہ تھی اور مجھے کسی
آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی۔یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے۔اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے اسے مسلمان کر دے۔اتنے حسین نوجوان کو جہنم کی آگ سے بچا لے۔رات کو آپ نے دعا فرمایٔ۔ صبح حضرت دحیہ قلبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گۓ۔ حضرت دحیہ قلبی کہنے لگے۔اے اللہ کے رسول۔۔۔بتایٔیں کیا احکام لے کر آۓ ہیں؟ آپ نے فرمایا۔۔۔میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ واحد ہے۔اس کا کویٔ شریک نہیں۔پھر توحید و رسالت کے بارے میں حضرت دحیہ قلبی کو بتایا۔حضرت دحیہ نے کہا۔ ۔ اللہ کے نبی میں مسلمان تو ہو جاؤں لیکن ایک بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے۔۔ ایک گناہ میں نے ایسا کیا ہے کہ آپ کا اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔آپ نے فرمایا ۔۔اے دحیہ!بتا تونے کیسا گناہ کیا ہے؟
دلوں کو دہلا دینے والے واقعے تو بہت پڑھے ہوں گے آپ نے بس ایک بار یہ تحریر ضرور پڑھیں۔۔۔ حضرت دحیہ قلبی رضہ اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہو کر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضہ اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوۓ تھے۔ایک دن سرور کونین تاجدار مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔آپ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حسین نوجوان ہے۔