*سيرت النبي ﷺقسط نمبر92....*
============
ان کے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے.. وہ مکہ ہی میں رخصت ہو کر حضرت عبداللہ کے پاس آئیں مگر تھوڑے عرصے بعد حضرت عبداللہ کو حضرت عبدالمطلب نے کھجور لانے کے لیے مدینہ بھیجا اور وہ وہیں انتقال کر گئے..
بعض اہل سِیر کہتے ہیں کہ وہ تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے تھے.. قریش کے ایک قافلے کے ہمراہ واپس آتے ہوئے بیمار ہو کر مدینہ اترے اور وہیں انتقال کر گئے.. تدفین نابغہ جَعدی کے مکان میں ہوئی.. اس وقت ان کی عمر پچیس برس کی تھی.. اکثر مؤرخین کے بقول ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا نہیں ہوئے تھے.. البتہ بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش ان کی وفات سے دو ماہ پہلے ہوچکی تھی..
===========>جاری ھے..
*سيرت النبي ﷺقسط نمبر95....*
============
وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاھنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا.. چنانچہ جب اس کاھنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جاۓ.. عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دیے جاتے ھیں تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جاۓ اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جاۓ جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا.. چنانچہ ایسے ھی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں پر نکلا.. اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا..
حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ سے ھوئی جو وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں اور نسب و رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں
*سيرت النبي ﷺقسط نمبر92....*
============
ذبیح کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عبدالمطلب کو بہت خواھش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ھوں چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے.. اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس بیٹے پیدا ھوئے.. دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی.. چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لیکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے.. جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا.. چنانچہ حضرت عبدالمطلب حضرت عبداللہ کو لیکر قربان گاہ کی طرف بڑھے..
یہ دیکھ کر خاندان بنو ھاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا' بہت پریشان ھوۓ
*سيرت النبي ﷺقسط نمبر93....*
============
4.. حضرت عبداللہ.. (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد محترم)
---------------------------------------------
حضرت عبدالمطلب کے کل دس بیٹے اور چھ بیٹیاں تھے جن کے نام یہ ہیں..
حارث , زبیر , ابوطالب , عبداللہ , حمزہ (رضی اللہ عنہ), ابولہب , غَیْدَاق , مقوم , صفار اور عباس (رضی اللہ عنہ)..
ام الحکیم (ان کا نام بیضاء ہے) بَرّہ , عَاتِکہ , اَروی ٰ, اُمَیْمَہ اور صفیہ (رضی اللہ عنہا)..
حضرت عبداللہ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ کی صاحبزادی تھیں.. عبدالمطلب کی اوّلاد میں عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت , پاک دامن اور چہیتے تھے اور ذبیح کہلاتے تھے..
جاری.......
*سيرت النبي ﷺقسط نمبر92....*
============
اس بات پر قریش کے معززین کو گواہ بنایا گیا مگر جب حضرت عبد المطلب کے ماموں واپس مدینہ چلے گئے تو نوفل بن عبد مناف نے عبد شمس بن عبد مناف (بنو امیہ ان کی نسل سے ھیں) اور اس کی اولاد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور حضرت عبد المطلب کے خلاف تحریک شروع کی.. بنو خزاعہ نے بنو ھاشم کا ساتھ دیا اور بیت الندوہ میں بنو ھاشم سے ان کا ساتھ دینے کا عہد کیا.. اس طرح قریش کی سرداری حضرت عبد المطلب کے پاس ھی رھی..
حضرت عبدالمطلب نے اپنی قوم میں اس قدر شرف واعزاز حاصل کیا کہ ان کے آباء واجداد میں بھی کوئی اس مقام کو نہ پہنچ سکا تھا.. قوم نے انہیں دل سے چاہا اور ان کی بڑی عزت و قدر کی..
جاری......
*سيرت النبي صلي الله عليه وسلم..قسط91..*
مکہ آنے کے کچھ عرصہ بعد ھی مطلب بن عبد مناف کی وفات یمن کے سفر میں ھو گئی تو ان کے چھوڑے ہوئے مناصب عبدالمطلب کو حاصل ہوئے.. سرداری اور کعبہ کے زائرین کی خدمت پر , جو مطلب بن عبد مناف نے حضرت عبد المطلب کے سپرد کی تھی , نوفل بن عبد مناف نے قبضہ کرنا چاھا.. حضرت عبد المطلب نے قریش کی مدد طلب کی مگر شنوائی نہ ھوئی.. اس کے بعد حضرت عبد المطلب نے اپنے ماموں ابو سعد (ان کا تعلق بنو نجار سے تھا..) کی مدد طلب کی جو 80 گھڑ سواروں کے ساتھ ان کی مدد کے لیے آئے.. انہوں نے نوفل بن عبد مناف سے کہا کہ "اے نوفل ! اگر تو نے عبد المطلب سے چھینا جانے والا حق انہیں واپس نہ کیا تو میں تلوار سے تمہاری گردن اڑا دوں گا.."
اس پر نوفل نے ان کی بات مان لی..
جاری۔۔۔۔۔۔
*سيرت النبي صلي الله عليه وسلم..قسط 90..*
ان کی سخاوت کے سبب قریش نے ان کا لقب "فیاض" رکھ چھوڑا تھا.. جب شیبہ یعنی عبدالمطلب سات یا آٹھ برس کے ہوگئے تو مطلب کو ان کا علم ہوا اور وہ انہیں لینے کے لیے روانہ ہوئے.. جب یثرب کے قریب پہنچے اور شیبہ پر نظر پڑی تو اشک بار ہوگئے.. انہیں سینے سے لگا لیا اور پھر اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر مکہ کے لیے روانہ ہوگئے مگر شیبہ نے ماں کی اجازت کے بغیر ساتھ جانے سے انکار کردیا.. اس لیے مطلب ان کی ماں سے اجازت کے طالب ہوئے.. آخر ماں نے اجازت دے دی اور مُطَّلِب انہیں اپنے اونٹ پر بٹھا کر مکہ لے آئے.. مکے والوں نے دیکھا تو کہا "یہ عبدالمطب ہے" یعنی مُطَّلب کا غلام ہے.. مطلب نے کہا "نہیں نہیں __ یہ میرا بھتیجا یعنی میرے بھائی ہاشم کا لڑکا ہے".. پھر شَیبہ نے مطلب کے پاس پرورش پائی اور جوان ہوئے
جاری.....
*سيرت النبي صلي الله عليه وسلم..قسط 89..*
*تذکرۂ خانوادۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.. (حصہ دوم)*
------------------------------------
3.. حضرت عبد المطلب..
---
پچھلی قسط میں حضرت ہاشم کے سفر شام , یثرب میں نکاح اور پھر فلسطین میں وفات کا ذکر کیا گیا.. ان کی وفات کے بعد 497ء میں ان کی زوجہ سلمی' سے ایک بیٹا پیدا ھوا.. چونکہ بچے کے سر کے بالوں میں سفیدی تھی اس لیے جناب سلمیٰ نے اس کا نام "شَیْبہ" رکھا اور یثرب میں اپنے میکے ہی کے اندر اس کی پرورش کی.. آگے چل کر یہی بچہ "عبد المُطَّلِبْ" کے نام سے مشہور ہوا.. عرصے تک خاندانِ ہاشم کے کسی آدمی کو اس کے وجود کا علم نہ ہوسکا..
سِقَایہ اور رِفادہ کا منصب ہاشم کے بعد ان کے بھائی مطلب کو ملا.. یہ بھی اپنی قوم میں بڑی خوبی واعزاز کے مالک تھے.
جاری۔۔۔
*سیرت مصطفیٰ ﷺ قسط نمبر..... 88*
========
غالبا" ان کا ارادہ تھا کہ واپسی پر ان کو مدینہ سے مکہ لے جائیں گے مگر شادی سے چند ماہ بعد دوران سفر ھی ان کا انتقال فلسطین کے علاقے غزہ میں ھو گیا..
===========>جاری ھے..
*سیرت مصطفیٰ ﷺ قسط نمبر..... 88*
انہوں نے قریش کے تجارتی قافلے شروع کروائے اور ان کے لیے بازنطینی سلطنت کے ساتھ معاہدے کیے جن کے تحت قریش بازنطینی سلطنت کے تحت آنے والے ممالک میں بغیر محصول ادا کیے تجارت کر سکتے تھے اور تجارتی قافلے لے جا سکتے تھے.. یہی معاہدے وہ حبشہ کے بادشاہ کے ساتھ بھی کرنے میں کامیاب ھوئے جس کا تمام قریش کو بے انتہا فائدہ ھوا اور ان کے قافلے شام , حبشہ , ترکی اور یمن میں جانے لگے..
ایک بار تجارت کی غرض سے شام گئے.. دوران سفر یثرب (جس کا نام بعد میں مدینہ یا مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھوا..) میں ٹھہرے.. وھاں قبیلہ بنی نجار کی ایک خاتون "سَلْمیٰ بنت عَمْرو" سے شادی کرلی اور کچھ دن وہیں ٹھہرے رہے.. پھر بیوی کو حالتِ حمل میں میکے ہی میں چھوڑ کر ملک شام روانہ ہوگئے..
جاری......
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 87..*
=====
تو عبدمناف کی اولاد میں حضرت ہاشم ہی کو سِقَایہ اور رِفادہ یعنی حجاج کرام کو پانی پلانے اور ان کی میزبانی کرنے کا منصب حاصل ہوا.. حضرت ہاشم بڑے مالدار اور نہایت ھی جلیل القدر بزرگ تھے.. ان کا اصل نام عمرو تھا.. چونکہ ان کے زمہ حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام بھی تھا تو وہ ان زائرین کی تواضع ایک خاص قسم کے عربی کھانے سے کرتے جسے "ھشم" کہا جاتا تھا.. (عربی زبان میں ھشم شوربہ میں روٹیاں چورا کرنے کو کہتے ھیں..) مکہ میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے تمام اھل مکہ کے لیے یہی شوربہ تیار کرایا جس پر انہیں "ھاشم" کا لقب ملا اور تاریخ نے پھر انہیں اسی لقب سے یاد رکھا..
ان کی اولاد قریش کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم کے نام سے مشھور ھے..
جاری......
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 86..*
=====
یہاں بنو اسماعیل اور مکہ کے دوسرے قبائل کے سرداروں اور عمائدین کے ساتھ ملکر مختلف امور کے متعلق بحث و تمحیث کے بعد فیصلے کیے جاتے.. قریش جب کوئی جلسہ یا جنگ کی تیاری کرتے تو اسی عمارت میں کرتے.. قافلے یہیں سے تیار ھو کر باھر جاتے.. نکاح اور دیگر تقریبات کے مراسم بھی یہیں ادا ھوتے..
اس کے علاوہ مختلف ریاستی امور نبٹانے کے لیے چھ مختلف شعبے قائم کیے اور ان کا انتظام اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا جسے ان کی وفات کے بعد ان کے پوتوں نے باھمی افہام و تفہیم سے چھ شعبوں سے بڑھا کر دس شعبوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا..
2.. حضرت ھاشم بن عبد مناف..
--------------------
حضرت ھاشم بن عبد مناف قصی بن کلاب کے پوتے تھے.. جب عبد مناف اور بنو عبد الدار کے درمیان عہدوں کی تقسیم پر مصالحت ہوگئی
جاری.....
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 85..*
=====
خانہ کعبہ کی تولیت ایک ایسا شرف تھا جس کی وجہ سے قصی بن کلاب اور ان کی آل اولاد کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے جزیرہ نما عرب میں ایک خصوصی سیادت اور عزت و احترام کا درجہ حاصل ھوگیا اور قصی بن کلاب نے خود کو اس کا اھل ثابت بھی کیا..
قصی بن کلاب کو بلامبالغہ مکہ کی شھری ریاست کا مطلق العنان بادشاہ کا درجہ حاصل تھا.. انہوں نے نہ صرف خانہ کعبہ گرا کر نئے سرے سے اس کی تعمیر کرائی بلکہ پہلی دفعہ اس پر کجھور کے پتوں سے چھت بھی ڈالی.. اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے جملہ انتظام کا جائزہ لے کر اس میں ضروری اصلاحات بھی کیں
دوسری طرف خانہ کعبہ کے پاس ھی ایک عمارت تعمیر کرائی جسے "دارالندوہ" کا نام دیا گیا
جاری......
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 84..*
*تذکرۂ خانوادۂ نبی کریم ﷺ (حصہ اول)*
=======
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خانوادہ اپنے جد اعلیٰ "ہاشم بن عبد مناف" کی نسبت سے خانوادۂ ہاشمی کے نام سے معروف ہے.. مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خانوادۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض نام ور افراد کے مختصر حالات پیش کر دیے جائیں..
1.. قصی بن کلاب..
-----
قصی بن کلاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانچ پشت پہلے کے بزرگ ھیں.. دراصل یہ ھی قصی بن کلاب ھیں جنہوں نے نہ صرف بنو خزاعہ سے خانہ کعبہ کی تولیت کا حق واپس لیا بلکہ اپنی قوم بنی اسماعیل اور قبیلے بنی قریش کو منظم و متحد کرکے مکہ کو ایک باقائدہ ریاستی شھر کی شکل دی
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 83..*
=====
بعض ناموں کے متعلق ان مآخذ میں اختلاف بھی ہے اور بعض نام بعض مآخذ سے ساقط بھی ہیں..
===========> جاری ھے..
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 82..*
=====
بن أرعوی بن عیض بن ذیشان بن عیصر بن أفناد بن أیہام بن مقصر بن ناحث بن زارح بن سمی بن مزی بن عوضہ بن عرام بن قیدار بن اسماعیل علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام..
طبقات ابن سعد ۱/۵۶،۵۷.. تاریخ طبری ۲/۲۷۲..
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر کے سلسلۂ نسب میں یقینا کچھ غلطیاں ہیں.. یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر حضرت آدم علیہ السلام تک جاتا ہے..
حضرت ابراہیم علیہ السلام بن تارح (آزر ) بن ناخور بن ساروع (یاساروغ) بن راعو بن فالخ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ (کہا جاتا ہے کہ یہ ادریس علیہ السلام کا نام ہے) بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن آنوشہ بن شیث علیہ السلام بن آدم علیہ السلام..
ابن ہشام ۱/۲-۴.. تاریخ طبری ۲/۲۷۶..
جاری۔۔۔۔
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 81..*
=====
حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن عبداللہ بن عبدالمطلب (شَیْبَہ) بن ہاشم (عمرو ) بن عبد مناف (مغیرہ) بن قصی (زید) بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لُوی بن غالب بن فِہر بن مالک بن نضر (قیس) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ (عامر ) بن الیاس بن مضر بن نِزار بن مَعَد بن عَدْنان..
ابن ہشام ۱/۱ , ۲ تاریخ الطبری ۲/۲۳۹-۲۷۱..
عدنان سے اوپر کے سلسلۂ نسب کی صحت پر اہل سِیر اور ماہرینِ انساب کا اختلاف ہے.. کسی نے توقف کیا ہے اور کوئی قائل ہے.. یہ عدنان سے اوپر ابراہیم علیہ السلام تک منتہی ہوتا ہے..
عدنان بن أد بن ہمیسع بن سلامان بن عوص بن یوز بن قموال بن أبی بن عوام بن ناشد بن حزا بن بلداس بن یدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخی بن عیض بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبر بن یثربی بن یحزن بن یلحن
جاری۔۔
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 80*
*شجرہ نسب محمدرسول اللّٰہ ﷺ*
=====
شروع کی اقساط میں قریش مکہ کی تاریخ بیان کی گئی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد کا مختصر ذکر بھی آیا.. اب ان کا دوبارہ تفصیلی ذکر کیا جارھا ھے..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ نسب بہت سی تاریخی شہادتوں اور حوالوں کے مطابق چالیس پشت بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ھے تاھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام تر بزرگوں کے ناموں کے متعلق مستند معلومات نہ ھونے کی وجہ سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت "عدنان" تک جا کر روک دیا جاتا ھے.. حضرت عدنان حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کوئی بیس پشت بعد پیدا ھوۓ.. انہی کے نام پر بنو اسماعیل کو بنو عدنان بھی کہا جاتا ھے.. حضرت عدنان تک آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ھے..
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 79
====
اور کبھی میدان جنگ میں ایرانیوں کی فتح کے طبل بجتے..
روم کی بازنطینی سلطنت کا حکمران "قیصر" کے لقب سے حکومت کرتا جبکہ ایران کی ساسانی سلطنت کا حکمران "کسری' " کہلاتے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں روم پر قیصر "ھرقل" کی حکومت تھی جبکہ ایران پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن میں مشھور ایرانی بادشاہ "نوشیرواں" کی حکومت تھی جبکہ اس کے بعد "خسرو پرویز" ایران کا شہنشاہ بنا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبلیغی خط کو پھاڑنے کی گستاخی کی تھی.
یہاں میں عربوں کی تاریخ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب کے عمومی حالات کا سلسلہ تمام کرتا ھوں.. ان شاء اللہ اگلی قسط سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باقاعدہ آغاز ھوگا..
===========> جاری ھے..
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 78
====
اور پھر مخالف قبیلے کے خلاف اعلان جنگ کردیا جاتا.. بسا اوقات یہ جنگیں مدتوں جاری رھتیں.. مثلا" بنو تغلب اور بنو بکر میں بسوس نامی ایک اونٹنی کو مار ڈالنے پر جنگ کا آغاز ھوا اور یہ جنگ پھر چالیس برس جاری رھی..
جب ھم جزیرہ نما عرب کے اطراف پر نظر ڈالتے ھیں تو ایک طرف روم کی عظیم بازنطینی سلطنت اور دوسری طرف ایران کی عظیم ساسانی سلطنت نظر آتی ھیں.. جزیرہ نما عرب کو ایک لحاظ سے ان دو عظیم ھمسایہ حکومتوں کے درمیان ایک "بفر سٹیٹ" کا درجہ حاصل تھا..
اھل عرب ان دو ھمسایہ سلطنتوں کو " اسدین غالب" (دو طاقتور غالب شیر) کہا کرتے تھے.. اس وقت یہ دنیا کی دو سب سے طاقتور ترین اقوام تھیں جو کئی صدیوں سے آپس میں برسر پیکار تھیں.. کبھی رومی ایرانیوں کو پامال کرتے ھوۓ شکست فاش سے دوچار کردیتے
جاری.....
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain