*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط57...
=====
اس نے شاہ حبشہ کو جو رومی حلقہ اثر میں ایک عیسائی حکمران تھا , حکم دیا کہ یوسف ذونواس سے اس ظلم و ستم کا بدلہ لیا جاۓ چنانچہ وھاں سے ایک حبشی نژاد لشکر آیا اور یوسف ذونواس کو شکست دیکر یمن پر بھی عیسائی حکومت قائم کردی..
"ابرھہ بن اشرم" اسی لشکر کا ایک فوجی سردار تھا جو بتدریج ترقی کرکے بالآخر یمن کا نیم خودمختار بادشاہ بن بیٹھا.. یہ کٹر عیسائی تھا اور
اس نے یمن میں عیسائیت کے فروغ کے لیے بے پناہ کام کیا.. یاد رھے کہ یہ وھی ابرھہ ھے جس نے "صنعاء" میں کعبہ کے مقابلے پر ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا اور پھر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادہ سے مکہ پر حملہ آور ھوا تھا.. (اس واقعہ کی تفصیل قسط نمبر 6 اور 7 میں گزر چکی ھے
جاری .....
*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط57...
=====
ان کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ مدینہ کے قبائل اوس و خزرج میں کسی کی اولاد نہ ھوتی تو وہ منت مانتا کہ بیٹا ھونے کی صورت میں اسے یہودی بنادیں گے..
عیسائیت..
عربوں میں تیسرا اھم مذھب عیسائیت تھا.. حضرت عیسی علیہ السلام سے کم و بیش 250 سال بعد
روم کی عیسائی حکومت کے زیراثر شام کی طرف کے عرب قبائل نے عیسائیت قبول کرلی.. دوسری طرف حیرہ کے عرب بادشاہ "نعمان بن منذر" نے دین عیسوی قبول کیا تو وھاں کے بہت سے لوگ عیسائی ھوگئے جبکہ یمن میں جب عیسائی مبلغین کی تبلیغ پر کچھ لوگ عیسائی ھوۓ تو یہودی بادشاہ "یوسف ذونواس" نے ان پر بے پناہ ظلم و ستم کیا اور پھر قتل کرادیا.. روم کی عیسائی حکومت تک جب یہ خبر پہنچی تو قیصر روم بہت غصبناک ھوا..
جاری۔۔۔۔۔۔
*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط57...
=====
نسلی برتری کا شکار یہ متعصب قوم خود کو خدا کا چہیتا اور برگزیدہ تصور کرتی تھی.. ان کا خیال تھا کہ جہنم کی آگ ان کو چند دن سے زیادہ
نہیں چھوۓ گی.. حالاں کہ یہ لوگ اپنے تمام تر اوصاف کھوچکے تھے.. سودخوری ان کا شعار بن چکی تھی.. حسب ضرورت تورات اور مذھبی احکام میں تحریف کرنا ان کے ھاں عام تھا.. مذھب گویا ان کے گھر کی لونڈی جیسا تھا جس کے ساتھ وہ جو چاھیں کریں.. چونکہ خود کو تمام اقوام سے برتر جانتے تھے تو ان سے ھر قسم کا دجل و فریب اور ظلم جائز تھا تاھم اپنی پوری دنیا پرستی کے باوجود مدینہ اور اردگرد کے علاقے میں ان کو الہیات اور خدائی علوم میں اجارہ داری حاصل تھی..
جاری......
*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط56...
=====
سب کی سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کھلم کھلا نظر آ گئیں مگر عرب
کے یہود نے محض اس حسد اور تعصب پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسمائیل میں سے تھے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی ماننے انکار کردیا..
سب سے پہلے یہ لوگ یثرب (مدینہ) اور خیبر کے علاقہ میں آباد ھوۓ.. ان کے اثر سے کچھ مقامی افراد نے بھی یہودیت اختیار کرلی.. پھر 354 قبل مسیح میں یثرب سے دو یہودی مبلغ یمن پہنچے تو ان کے اثر سے یمن کے حمیری بادشاہ "یوسف ذونواس" نے جب یہودی مذھب قبول کرلیا تو یمن میں یہودیت کو بہت فروغ ملا..
یہ لوگ اپنے علم اور دولت کی وجہ سے خود کو عربوں سے بہت برتر خیال کرتے تھے اور عربوں کو اپنے مقابلے میں "امی" یعنی جاھل سمجھتے تھے..
جاری......
*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط55...
=====
اور خود کو یہاں محفوظ جان کر آباد ھوگئے..
دوسری بہت اھم وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کو تورات و زبور کی پیش گوئیوں کی وجہ سے علم تھا کہ اللہ عنقریب اپنا آخری پیغمبر سرزمین عرب میں مبعوث فرمانے والا ھے.. یہ اس نبی کو اپنا نجات دھندہ جانتے تھے اس لیے یہ لوگ آخری نبی کے انتظار میں یہاں آ کر آباد ھوگئے.. چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام سے لیکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جتنے بھی نبی آۓ سب بنی اسرائیل میں سے ھی مبعوث ھوۓ تھے تو اس بناء پر ان کا خیال تھا کہ آخری نبی بھی بنی اسرائیل سے ھی ھوگا مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ملی تو اس بات کے باوجود کہ تورات و زبور اور دوسرے الہامی صحائف میں آخری نبی کی جو نشانیاں بتائی گئی تھیں
جاری.....
*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط54*
آپ ﷺ کی ولادت کے وقت سرزمین عرب میں موجود دوسرے ادیان ومذاہب کا مختصر سا جائزہ:
=====
پچھلی اقساط میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ بیان کی گئی.. اس قسط میں ھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود دوسرے مذاھب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے..
یہودیت..
عرب میں بت پرستی کے بعد دوسرا اھم ترین مذھب یہودیت تھا.. یہ لوگ دو وجہ سے سرزمین میں آباد ھوۓ.. ایک تو اس لیے کہ حضرت عیسی' علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو سال پہلے جب بابل کے بادشاہ "بخت نزار" نے فلسطین کو تاراج کیا اور تباہ و برباد کیا تو یہودیوں کے بہت سے قبائل جان بچاکر دنیا کے کئی دوسرے حصوں کی
طرف بھاگے.. انہی میں سے چند قبائل عرب کی طرف آ نکلے
جاری....
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔۔ قسط53.*
=====
اھل مکہ کے نذدیک سب سے اھم بت لات , منات , عزی' اور ھبل سمیت لگ بھگ تین سو ساٹھ چھوٹے بڑے بت تھے جو حرم کعبہ میں نصب تھے عرب ان کی پوجا بھی کرتے اور ان پر قربانیاں بھی پیش کرتے حج کے دنوں میں یہ کفر و ضلالت کے مناظر اور بڑھ جاتے جب حج کو آنے والے ننگے ھو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے بتوں کے آگے فال نکالنے والے پانسے پھینکے جاتے اور نذریں مانی جاتیں..
غرضیکہ شیطانیت سرزمین عرب پر اپنی انتہا کرچکی تھی اور عرب قوم شرک و گمراھی میں پستی کے جس مقام پر پہنچ چکی تھی اس سے آگے کوئی اور پست مقام نہ تھا اب اللہ کی شان رحمانیت کی باری تھی چنانچہ انہی مشرکین کے بیچ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرکے شرک و کفر کے بت پر وہ کاری ضرب لگائی کہ روۓ زمین کے چپہ چپہ پر توحید و واحدانیت کے چراغ روشن ھوگئ
جاری
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔۔ قسط52.*
=====
اگر روانگی کے وقت پتھر ساتھ لینا بھول جاتے تو راستے میں جس منزل پر رکتے تو وھاں سے ھی چار پتھر تلاش کرتے.. تین کا چولہا بناتے اور چوتھے کو معبود بنا لیتے.. اگر کہیں پتھر نہ ملتے تو مٹی اور کنکریوں کا ایک ڈھیر جمع کرکے اس پر بکری کا دودھ بہاتے اور پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ھوجاتے..
ذوق بت پرستی صرف پتھر تک محدود نہ تھا.. لکڑی اور مٹی کے بھی بت بناۓ جاتے.. ایک مرتبہ بنو حنیفہ نے کجھوروں کے ایک ڈھیر کی عبادت شروع کردی.. اسی اثناء میں قحط پڑ گیا.. جب کھانے کو اور کچھ نہ ملا تو سب نے مل کر اپنے "خدا" کو ھی کھا کر ختم کردیا..
یوں خانہ کعبہ جو زمین پر اللہ کا سب سے قدیم اور مقدس ترین گھر ھے مشرکین کے ھاتھوں شرک و گمراھی کا گڑھ بن چکا تھا
جاری۔۔۔۔۔
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔۔ قسط51.*
=====
وہ بات بات سے نیک و بد شگون لیتے اور پھر برے شگون سے بچنے کے لیے کاھنوں کی خدمات حاصل کرتے.. اس طرح کاھنوں کا جنتر منتر اور ٹوٹکوں کا کاروبار خوب چمکا ھوا تھا. کاھن لوگ جنوں بھوتوں کے مطیع ھونے کا دعو'ی کرتے اور لوگوں کو جھوٹی سچی غیب کی خبریں دیتے تھے.. شرک و بت پرستی میں ڈوبے یہ عرب انتہا درجے کے رسوم پرست تھے اور جاھلانہ رسوم و رواج کا ایک طویل سلسلہ ان کے ھاں رائج تھا..
ان کی بت پرستی اور توھم پرستی کی بعض نہائت مضحکہ خیز پہلو بھی مؤرخین نے بیان کیے ھیں مثلا" سفر پر روانہ ھوتے تو ایک پتھر جیب میں ڈال لیتے.. راستے میں اگر کوئی اور اچھا پتھر مل جاتا تو پہلے "خدا" کو جیب سے نکال کر پھینک دیتے اور نئے "خدا" کی پرستش شروع کردیتے..
جاری۔۔۔۔۔۔
*سیرت النبیﷺ ۔۔۔۔ قسط50..*
*اہل مکہ کے عقائد اور شرکیہ اعمال
====
درحقیقت مشرکین مکہ و عرب ان بتوں کو معبود حقیقی نہیں مانتے تھے بلکہ وہ اللہ کو ھی واحد معبود حقیقی مانتے تھے وہ ان بتوں کو اللہ کی بارگاہ میں اپنا سفارشی تصور کرتے تھے اور وہ ان بتوں کی تعظیم و عبادت اس اعتقاد کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ ان کو اللہ سے قریب کردیں گے.. دوسرا وہ تصور کرتے تھے کہ ان بتوں کو خدائی صفات میں سے قوتیں اور طاقتیں حاصل ھیں لیکن بہرحال حقیقی رازق و مالک وہ اللہ کو ھی مانتے تھے.. دراصل مشرک ھوتا ھی وھی ھے جو اللہ کو مان کر پھر اس کی ذات , صفات یا عبادت میں کسی اور کو شریک کرے..
ان مشرکانہ عقائد کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرکین مکہ بری طرح سے توھم پرستی کا شکار ھوگئے
جاری۔۔۔۔۔
*سیرت النبیﷺ قسط نمبر49.....
*یعوق..*
یعوق کے معنی "مصیبت روکنے والا" ھیں.. گھوڑے کی شکل والا یہ بت عمرو بن لحی شام سے لایا تھا اور اسے بنو ھمدان و خولان کے حوالے کیا تھا جو اسے اپنے ساتھ یمن لے گئے اور اسے "صنعاء" سے کچھ فاصلے پر "ارحب" کے مقام پر نصب کرکے اس کی پوجا شروع کردی..
*یغوث..*
یہ بت بھی یمن کے ایک علاقہ "اکمہ" میں نصب تھا.. یہ شیر کی شکل کا بت تھا.. یغوث کے معنی "فریاد کو پہنچنے والا" ھیں..
*ود..*
یہ بت دومتہ الجندل کے مقام پر نصب تھا اور بنو کلب اس کی پوجا کرتے تھے جبکہ قریش مکہ بھی اس کی عظمت کے قائل تھے اور اس کو پوجتے تھے..
انکے علاوہ عائم , الضیزنان , اقیصر , الجلسد , ذوالخلصہ , ذوالشری اور ذوالکفین بھی عربوں کے اھم بتوں میں شامل ھیں جبکہ غیر اھم بتوں کی ایک کثیر تعداد ان کے علاوہ ھے..
=====>جاری
*سیرت النبیﷺ قسط نمبر48.....
*اساف و نائلہ..*
یہ انسانی شکل کے بت تھے.. دراصل ایک مرد "اساف" اور عورت "نائلہ" کعبہ میں زنا کے مرتکب ھوۓ اور جب لوگوں نے آکر دیکھا تو وہ پتھر بن چکے تھے.. اھل مکہ نے انہیں عبرت کے لیے صفا اور مروہ پر رکھ دیا تھا مگر انہیں بھی عمرو بن لحی حرم کعبہ میں لے آیا اور زم زم کے پاس رکھ دیا.. لوگ ان کا طواف بھی کرتے اور قربانیاں بھی کرتے تھے
*سواع..*
یہ ان پانچ بتوں میں شامل تھا جن کو قوم نوح پوجا کرتی تھی اور جنہیں عمرو بن لحی شام سے لایا تھا.. باقی چار بتوں میں نسر , ود , یعوق اور یغوث شامل ھیں یہ بت عورت کی شکل میں تھا اور مدینہ منورہ کے قریب نصب تھا
*نسر..*
یہ بت یمن میں حمیر کے علاقے میں نصب تھا یہ گدھ کی شکل میں تھا اھل حمیر تب تک اس کی پوجا کرتے رھے جب تک انہوں نے یہودی مذھب اختیار نہ کرلی
جاری۔۔۔۔
*سیرت النبیﷺ قسط47....
=====
*منات..*
یہ عرب کا سب سے قدیم ترین بت تھا جو مکہ اور مدینہ کے بیچ میں "مشلل" کے علاقہ میں "قدید" کے مقام پر سمندر کے قریب نصب تھا.. منات کی پوجا کا آغاز بھی عمرو بن لحی نے کیا.. قبائل اوس و خزرج جب حج کرکے واپس مدینہ کو روانہ ھوتے تو منات کے بت کے پاس ھی احرام اتارا کرتے جبکہ بنو ازد اور بنو غسان تو باقاعدہ اسی بت کا حج بھی کرتے تھے.. اھل مدینہ کے نزدیک حج کی تکمیل تب تک نہ ھوتی تھی جب تک منات کی پوجا نہ کی جاۓ.. اس بت کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر فتح مکہ کے لیے جاتے ھوۓ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے منہدم کردیا..
جاری۔۔۔۔
*سیرت النبیﷺ قسط 46....
=====
*عزی'..*
مکہ سے چند میل دور وادی نخلہ میں کیکر کے ایک درخت کے نیچے عزی' کا تھان تھا جہاں عزی' کا بت نصب تھا جبکہ خانہ کعبہ میں بھی عزی' کا بت رکھا ھوا تھا جسے فتح مکہ کے وقت توڑا گیا.. جبکہ وادی نخلہ میں عزی' کے اصل بت کو توڑنے کے لیے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا.. عزی' کا بت مشرکین مکہ کے نزدیک سب سے عظیم ترین بت تھا..
*لات..*
یہ طائف میں اس جگہ نصب تھا جہاں آج کل مسجد طائف کا بایاں مینار ھے.. لات کے معنی ھے "ستو گھولنے والا".. دراصل یہ ایک شخص تھا جو حاجیوں کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا.. بعد میں عمرو بن لحی کے ایما پر اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کی جانے لگی.. قریش رات سونے سے پہلے عزی' اور لات کی پوجا پاٹ کرتے تھے اور قسم بھی انہی دو بتوں کی کھایا کرتے تھے..
جاری۔۔۔۔۔
*سیرت النبیﷺ قسط 45..*
*مشرکین مکہ کے معبودانِ باطلہ
=====
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت عربوں اور خصوصا" مشرکین مکہ میں جن بتوں کو بہت اھم جانا جاتا تھا ان کی تفصیل درج ذیل ھے..
*ھبل..*
یہ مشرکین مکہ کے سب سے اھم ترین بتوں میں سے ایک تھا.. دراصل یہ اھل شام کا دیوتا "بعل" تھا جس کے معنی "طاقتور" کے ھیں اور جسے عربوں نے (بعل کی تحریف شدہ شکل) ھبل کا نام دیا.. یہ بت قریش مکہ کو انسانی مورت کی شکل میں ملا جو سرخ عقیق سے تراشا ھوا تھا.. اس کا دایاں ھاتھ ٹوٹا ھوا تھا.. قریش مکہ نے وہ سونے کا بنوا کر لگا دیا.. ھبل خاص خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا.. مشرکین مکہ جنگوں میں اسی ھبل کا نام لےکر نعرے لگاتے تھے.. فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے پاش پاش کیا..
جاری۔۔۔۔۔
سیرت النبی ﷺ قسط 44
======
آھستہ آھستہ اھل مکہ خود نئے نئے بتوں کو ڈھالنے لگا اور تب بہت سے ایسے بت بناۓ گئے جنہیں آنے والے دور میں مشرکین عرب میں بے پناہ اھمیت حاصل ھوئی..
چونکہ کعبہ کی وجہ سے مکہ پورے جزیرہ نما عرب کا مرکز تھا تو جب باھر سے مختلف قبائل کے لوگ حج کے دنوں میں مکہ آتے تو وھاں ان بتوں کی پرستش ھوتے دیکھ کر واپسی پر ان بتوں کی شبیہیں بنوا کر ساتھ لے جاتے اور اپنے علاقے میں ان کو نصب کرکے ان کی پوجا شروع کردیتے..
===========>جاری ھے..
سیرت النبی ﷺ قسط ..43
====
ایک بار جب وہ شام گیا تو وھاں اس نے لوگوں کو بتوں کی پرستش کرتے دیکھا..
یہ کل پانچ بت تھے جن کے نام "ود , یغوث , سواع , یعوق اور نسر" تھے.. ان بتوں کو قوم نوح علیہ السلام پوجا کرتی تھی.. یہ شخص وھاں سے ان کے بت ساتھ لے آیا اور واپسی پر ان کو جدہ کے ایک مقام پر دفن کردیا.. جب مکہ واپس پہنچا تو وھاں مشھور کیا کہ اسے اس کے تابع جن نے ان بتوں کا پتہ بتایا ھے جنہیں قوم نوح پوجا کرتی تھی.. پھر وہ اھل مکہ کو جو پہلے ھی شرک و بت پرستی کی طرف راغب ھوچکے تھے , ساتھ لےکر جدہ پہنچا اور وھاں سے وہ بت زمین کھود کر نکال لیے اور انہیں مکہ لا کر خانہ کعبہ میں رکھ دیا جھاں تعظیم کے نام پر ان بتوں کی عبادت شروع ھوگئی اور ان بتوں کو مختلف خدائی صفات کا مالک تصور کیا جانے لگا..
جاری۔۔۔۔
سیرت النبیﷺ ۔۔۔۔ قسط42..
====
پچھلی ایک قسط میں ذکر کیا گیا کہ جب مکہ پر قبیلہ ایاد و بنو خزاعہ یکے بعد دیگرے حملہ آور ھوۓ تو بنو اسماعیل کے کئی قبائل کو مکہ چھوڑنا بھی پڑا.. تب یہ لوگ برکت کی غرض سے کعبہ کا ایک پتھر بھی اپنے ساتھ لے گئے.. کعبہ سے نسبت کی وجہ سے وہ اس کی بہت تعظیم کرنے لگے.. اس تعظیم کا اثر یہ ھوا کہ آھستہ آھستہ آنے والے وقت میں ان کی آل اولاد نے خود اسی پتھر کو معبود مجازی کا درجہ دے دیا.. اس طرح ان میں شرک رائج ھونا شروع ھوا..
لیکن حقیقی معنوں میں عربوں اور خصوصا" اھل مکہ میں باقاعدہ شرک و بت پرستی کا آغاز حضرت ابراھیم علیہ السلام سے کم و بیش ڈھائی ھزار سال بعد ھوا جب بنو خزاعہ نے مکہ پر قبضہ کیا.. عربوں میں بت پرستی کا آغاز کرنے والا قبیلہ خزاعہ کا سردار " عمرو بن لحی" تھا.. یہ شخص خانہ کعبہ کا متولی تھا
جاری...
سیرت النبیﷺ ۔۔۔۔ قسط41..
بت پرستی کیسے شروع ہوئی؟
=====
جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو آپ کی تبلیغ سے قبائل جرھم و قطورا نے دین ابراھیمی قبول کرلیا اور اللہ کو ایک خدا مان لیا.. حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اثر سے بعد میں مکہ آباد ھونے والے بھی دین حنیف یعنی حضرت ابراھیم علیہ السلام کا دین قبول کرتے رھے.. تب آل اسماعیل سمیت تمام قبائل مکہ صرف ایک واحد خدا کی عبادت کے قائل تھے اور خانہ کعبہ کا تقدس پوری طرح سے قائم تھا لیکن جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وفات کے بعد پھر کوئی نبی اھل مکہ کی راھنمائی کے لیے مبعوث نہ ھوا تو آھستہ آھستہ ان میں شرک و گمراھی پھیلنے لگی..
جاری......
*سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.. قسط نمبر40..*
=====
یہ واقعہ 571 عیسوی میں محرم کے مہینہ میں مزدلفہ اور منی' کے درمیان وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا.. جس سال یہ واقعہ پیش آیا اھل عرب اسے عام الفیل کہتے ھیں جبکہ اسی سال اس واقعہ کے 50 دن بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت مبارک ھوئی..
===========>جاری ھے..
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain