کھلی کتاب کے صفحے الٹتے رہتے ہیں ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں بس ایک وحشت منزل ہے اور کچھ بھی نہیں کہ چند سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہتے ہیں مجھے تو روز کسوٹی پہ درد کستا ہے کہ جاں سے جسم کے بخیے ادھڑتے رہتے ہیں کبھی رکا نہیں کوئی مقام صحرا میں کہ ٹیلے پاؤں تلے سے سرکتے رہتے ہیں یہ روٹیاں ہیں یہ سکے ہیں اور دائرے ہیں یہ ایک دوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں اجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں
جہاں دیکھو عشق کے بیمار بیٹھے ہیں ہزاروں مر کر بھی لاکھوں تیار بیٹھے ہیں برباد کرکے اپنی تعلیم لڑکیوں کے پیچھے پھر کہتے ہیں مولوی صاحب دعا کرو ہم بے روزگار بیٹھے ہیں #targeted
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں ایک پرانا خط کھولا انجانے میں شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں
عکسِ خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی