ہر شے میں ہے تغیر جو ہر پل جدا ملے جلتا ہوا چراغ بھی پل میں بجھا ملے پل میں کہیں بہار تو پل میں خزاں ملے پل میں ہوا کا رخ بھی بدلتا ہوا ملے پل میں کہیں خوشی ہو تو ماتم بھی ہو کہیں پل میں ملے فراخی تو پل میں لٹا ملے
ترے پاس جو مجھ کو آنا پڑا ہے مجھے راستے میں زمانہ پڑا ہے تمنّا تھی کہ جان لیتے مرا دکھ مگر قصّہ غم کا سنانا پڑا ہے تکبّر نے اس کو نہیں جھکنے دیا مجھے ہاتھ پہلے بڑھانا پڑا ہے