ملا تو حادثہ کچھ ایسا دل خراش ہوا وہ ٹوٹ پھوٹ کے بکھرا میں پاش پاش ہوا تمام عمر ہی اپنے خلاف سازش کی وہ احتیاط کی خود پر نہ راز فاش ہوا ستم تو یہ ہے وہ فرہاد وقت ہے جس نے نہ جوئے شیر نکالی نہ بت تراش ہوا یہی تو دکھ ہے برائی بھی قاعدے سے نہ کی نہ میں شریف رہا اور نہ بد معاش ہوا ہو ایک بار کا رونا تو روؤں بھی دل کو یہ آئنہ تو کئی بار پاش پاش ہوا بلا کا حبس تھا حسین ہوا کی بستی میں چلی جو سانس کی آری میں قاش قاش ہوا