مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے
میری بھی کوئی قیمت ہو گئی ہے
وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں
یہ دنیا خوب صورت ہو گئی ہے
چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں
بیاں مجھ سے حقیقت ہو گئی ہے
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے
مگر پانی کی قلت ہو گئی ہے
مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہو گئی ہے
حقیقت یہ ہے ہم کیا اٹھ گئے ہیں
وفا دنیا سے رخصت ہو گئی ہے
غم جاناں میں جب سے مبتلا ہو
غم دوراں سے فرصت ہوگئی ہے
اب ان کی کفر سامانی بھی آتش
دل و جاں پر عبارت ہوگئی ہے