صبر بے مثل تھا__ہمت تھی, بلا کی میری
پر تیری بات تھی__سہنے میں ذرا وقت لگا...!!!!!
یہ عیب مجھ میں شروع سے رہا ہے
کہ مجھے جھوٹ بولنے کا سلیقہ نہیں
ہاتھ چھوڑ دینے والے کی اپنی اذیت ہے
اور ہاتھ چھڑا لینے والے کی اپنی کہانی ہے
لیکن اس عمل میں محبت یتیم ہو جاتی ہے
پُر خار ہیں تکلم کچھ عادتیں بُری ہیں
میں کھل کے کہہ رہا ہوں میں پارسا نہیں ہوں
تیرے ہجر کو اپنا بنانے سے
کم نکلتے ہیں ہم اب میخانے سے
خواب راہ تکتے رہتے ہیں
سر نہیں لگتا سرہانے سے
محبت میں ہوئے یوں رسوا
دل بھر گیا ، دل لگانے سے
نیند آۓ گی تو اس قدر سوئیں گے
ہمیں جگانے کے لیے لوگ روئیں گے
حشر میں بتاؤں گا
جو حشر تو نے کیا ہے میرا
اِک تیری برابری کے لیے
خود کو کتنا گرا چکا ہوں میں
تیرے وعدے اگر وفا ہوتے
ہم مجازی سہی، خدا ہوتے
مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں
یوں بھی میں ہٹ گیا ہوں منظر سے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا ہے کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرار محبوبی نہیں
ان دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام
ہم ایک عمر سے واقف ہیں، اب نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیا ہے میرے مہرباں، ستم کیا ہے
درد اٹهتا ہے تو تصور میں آجاتے ہیں وہ
خدا میرے درد کی عمر دراز کرے
لہجے بدل رہے ہیں الفاظ بدل رہے ہیں
آہستہ آہستہ ان کے انداز بدل رہے ہیں