ایسا دلکش تھا کہ تھی موت بھی منظور ہمیں
ہم نے جس جرم کی کاٹی ہے سزا زنداں میں
بچھڑ کے تجھ سے لگا ہے یہ دل غموں کا گِھراؤ
نہ کوئی خواب ہے باقی، نہ کوئی آسرا رہ گیا
چُپ چُپ کے روتے ہیں ہم شبوں کی تنہائی میں
تیری یادیں بھی اب آ کر ہمیں رولاتی ہیں
کبھی جو خوشبو ہوا کرتی تھی تیری باتوں میں
اب وہی لفظ بھی سینے پہ بوجھ بن جاتے ہیں
زمانہ پوچھتا ہے، کیوں اُداس رہتے ہو
کسے بتائیں، وہ چہرہ اب خوابوں میں بھی کم آتا ہے
*ہنستی ہے میرے نامہء اعمال پہ دنیا..*
*خود جیسے کسی چشمہء زم زم کی دُھلی ہو..*
دونوں نے کیا ہے مجھ کو رسوا
کچھ درد نے اور کچھ دوا نے
دامن صبر کے ہر تار سے اٹھتا ہے دھواں
اور ہر زخم پہ ہنگامہ اٹھا آج بھی ہے

تونے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا
کیسے رشتے تیری خاطر یونہی توڑ آیا ہوں
کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے
کتنی اُجلی تھیں وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آیا ہوں

حساسیت بڑھتی گئی ہر سانحے کے بعد
ہم اس کے لیے بھی روئے جسے جانتے نہ تھے
پھر رفو گر نے بھی یہ کہہ کہ مُجھے موڑ دیا
جا! یہاں پر تو کوئی زخم نہیں سِلتے اب
ظلم بھی ہو گا بھلا اس سے زیادہ کوئی
درد قائم ہے مگر اشک نہیں مِلتے اب
ہائے، وہ آخری سفید لباس,
چیخیں، صدمہ، چارپائی، جنازہ
جوانی کی موت چاہتا ہوں
جیسے تڑپا ویسے تڑپانا چاہتا ہوں
بس آخری ہچکی کا انتظار ہے
پھر یہ زندگی بہت آسان ہے
ہزار ذائقے ہوں گے حیات کے لیکن
ہم ایک ذائقہِ تلخ سے شناسا ہیں
تم اب سے قبل بھی ملتے تھے اب بھی ملتے ہو
ہم اب سے قبل بھی تنہا تھے، اب بھی تنہا ہیں

جن پر آپ آنکھیں بند کر کے بھروسہ کریں
اکثر وہ ہی آپ کی آنکھیں کھول جاتے ہیں
سنا ہے میری موت کے لیے روزے رکھتے ہیں وہ
کہہ دو ان سے کہ آج وہ عید منا لے

میں ہوں امتحان میں اضافی سوال جیسا
جو یاد بھی ہو تو خود چھوڑ دیا جاتا ہے

ﺍﺱ ﺩﻥ ﺗﻢ کو ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻭگاسنگدل
ﺟﺲ ﺩﻥ میرا ﻧﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ میں پکاﺭﺍ ﺟﺎۓ گا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain