بچھڑ کے تجھ سے لگا ہے یہ دل غموں کا گِھراؤ نہ کوئی خواب ہے باقی، نہ کوئی آسرا رہ گیا چُپ چُپ کے روتے ہیں ہم شبوں کی تنہائی میں تیری یادیں بھی اب آ کر ہمیں رولاتی ہیں کبھی جو خوشبو ہوا کرتی تھی تیری باتوں میں اب وہی لفظ بھی سینے پہ بوجھ بن جاتے ہیں زمانہ پوچھتا ہے، کیوں اُداس رہتے ہو کسے بتائیں، وہ چہرہ اب خوابوں میں بھی کم آتا ہے
تونے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا کیسے رشتے تیری خاطر یونہی توڑ آیا ہوں کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے کتنی اُجلی تھیں وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آیا ہوں