امجد اسلام امجد کی یہ غزل آپ احباب کی نظر بھنور میں کھو گئے ایک ایک کرکے ڈُوبنے والے سرِ ساحل کھڑے تھے سب تماشا دیکھنے والے خدا کا رِزق تو ہر گز زمیں پر کم نہیں یارو! مگر یہ کاٹنے والے! مگر یہ بانٹنے والے! کہاں یہ عشق کا سنگِ گراں ہر اِک سے اُٹھتا ہے ! بہت سے لوگ تھے یوں تو یہ پتّھر چُومنے والے وفا کی راہ مقتل سے گزرتی ہے تو بِسم اللہ’ نہیں پَسپائی سے واقف تمھارے چاہنے والے اَزل سے ظُلم دیکھے جارہی ہیں، دیکھتی آنکھیں اَزل سے سوچ میں ڈوبے ہیں امجد سوچنے والے