کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں
مجھ کو یہ اعتراف دعاؤں میں ہے اثر
جائیں نہ عرش پر جو دعائیں تو کیا کریں
Shiddat-E-Gham Me Kia Haal Hua Hai Dil Ka
Kahun Kia K Haal Be-Haal Hua Hai Dil Ka
Samete Bhi Nah Simte Abto Hai Ye Kaifyat
Reza Reza Bhi Kia Kamaal Hua Hai Dil Ka
ہم اتنے انمول تو نہیں مگر ہماری قدر کرنا کیونکہ
بارش کے قطرے زمین میں جذب ہونے کے بعد ملا نہیں کرت
جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا
مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا
یہ شعلگی ہو بدن کی تو کیا کیا جائے
سو لازمی تھا ترے پیرہن کا جل جانا
ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
تڑپ کے روح یہ کہتی ہے ہجر جاناں میں
کہ تیرے ساتھ دل بے قرار ہم بھی ہیں
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
زندگی کبھی کبھی عجب رنگ دکھلا تی ھے
کبھی یہ ھنسا تی ھے کبھی یہ رلاتی ھے
اک پل میں صدا اپنی سی لگتی ھے
دوسرے لمحے کہیں دور چلی جاتی ھے
دور کہیں سے ایک صدا اب بھی سنائی دیتی ہے
چھوڑ کے جانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
دیپک برپا ہوا نہیں قہر تمھاری بستی پر
ستم مچانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
گھر کے ایک دریچے کا جلنا کچھ کچھ رہتا ہے
آگ لگانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
دیکھو سالم اب تک ہے کمرے والی اک دیوار
اِسے گرانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
سر سے لے کر پاؤں تک درد کا اب احساس نہیں
چوٹ لگانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
مدھم سے کچھ منظر جو آنکھیں اب بھی دیکھتی ہیں
تیر چلانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
پتھر برسانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
مجھے مٹانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
گھائل بدن میں اب بھی میرے لوہو تھوڑا باقی ہے
پوچھ بہانے والا کوئی رہ تو نہیں گی
خار کا درد بھی جس نے جھیلا نہیں
وہ کیا سمجھے گا ہوتی ہے کیا خود کشی
زندگانی کے ہر اک بیابان سے
دے رہی ہے مجھے اب صدا خود کشی
سوچتا ہوں کہ ہوتی ہے کیا خود کشی
لوگ کرتے ہیں کیونکر بھلا خود کشی
بزدلی کا اسے نام یوں ہی نہ دے
حوصلہ ہے تو کر کے دِکھا خود کشی
ہم اتنے انمول تو نہیں مگر ہماری قدر کرنا کیونکہ
بارش کے قطرے زمین میں جذب ہونے کے بعد ملا نہیں کرتے
آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا
کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا
ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دی
ترے جیسا میرا بھی حال تھا نہ سکون تھا نہ قرار تھا
یہی عمر تھی مرے ہم نشیں کہ کسی سے مجھ کو بھی پیار تھا
میں سمجھ رہا ہوں تری کسک ترا میرا درد ہے مشترک
اسی غم کا تو بھی اسیر ہے اسی دکھ کا میں بھی شکار تھا
ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں کہانی میری
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھیڑ میں بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں
فقط تم ہی کو نہیں رنجِ چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے
سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گئے
اسی نظر کے لئے بے قرار رہتے تھے
اسی نگاہ کی بے تابیوں سے ڈر بھی گئے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain