وہ آہستہ آہستہ سے اس کے اوپر آیا تھا__باہر موسلادھار بارش برس رہی تھی_دسمبر کی یخ بستہ شام اور اس پر سردی کی بارش__اور پھر اس کا گرم وجود __اور کیا چاہئے تھے__اس کے گرم وجود کی ساری نرمیوں کو محسوس کرتے ہوئے وہ اسے اوڑھ لینا چاہتا تھا _تاکہ سردی کا وجود ختم ہوجائے _ مگر اسے کوئی جلدی نہیں تھی_گھڑی پر رات کے ابھی 11 بجے تھے _اس کے پاس پوری رات تھی ان نرمیوں سے کھیلنے کی اور اس کومل لمس کو اپنے پوروں میں چننے کے کی_اسے اچھی طرح قریب کرتے ہوئے اُس کی خوشبو مشام جان میں اتارنے کی کوشش کی__ یہ قصہ رضائی کا ھے اور میرا ۔🌚
jo Lrkia bhai bol k xhuni kaki bnti hy ایک فلائٹ پہ ایک ایئر ہوسٹس ذرا چُلبلی سی ھو رھی تھی میرے پاس سے بار بار گزرے اور کہے کہ ، ”چاچا جی کیا حال ھے“؟ میں اُس زمانے میں اتنا بوسیدہ اور عمر رسیدہ نہیں ھُوا کرتا تھا ۔ ایک بار پھر پاس سے گزری تو کہنے لگی ، آپ کو کوئی چیز چاھیے چاچا جی؟ میں نے کہا ، پانی کا ایک گلاس دے دو۔ جب وہ مجھے چاچا جی کہتی تو جہاز میں بیٹھے لوگ مسکرانا شروع کردیتے کیونکہ کہ وہ چھوٹا سا جہاز تھا۔ اُس نے گلاس رکھ کے ایک دفعہ پھر کہا ، چاچا جی !! میں جب آپ کو چاچا جی کہتی ھُوں آپ مائنڈ تو نہیں کرتے؟ میں نے کہا ، بی بی تُو مجھے چاچا جی کہہ یا دادا جی کہہ اندر سے جو میری نیت ھے وہ تو نہیں بدلنی۔