کاش میں سونپ دوں تجھکو بصیرت اپنی۔۔
پھر تو خود کو میرے ذوقِ نظر سے دیکھے.
Is sy zyada bewafi k kya saboot ho ga
Ap k millaya howa num masroof hai
ساری کہانی کا بس یہ خلاصہ ہوا
تیرے بعد میری چائے میں اضافہ ہوا
Muhabbat Kya hai One line reply
میں آئینہ تھا وہ میرا خیال رکھتی تھی
میں ٹوٹتا تھا تو چُن کر سنبھال رکھتی تھی
ہر ایک مسئلے کا حل نکال رکھتی تھی
ذہین تھی مجھے حیرت میں ڈال رکھتی تھی
میں جب بھی ترکِ تعلق کی بات کرتا تھا
وہ روکتی تھی مجھے کل پہ ٹال رکھتی تھی
وہ میرے درد کو چُنتی تھی اپنی پوروں سے
وہ میرے واسطے خُود کو نِڈھال رکھتی تھی
وہ ڈوبنے نہیں دیتی تھی دُکھ کے دریا میں
میرے وجود کی ناؤ اُچھال رکھتی تھی
دُعائیں اُس کی بَلاؤں کو روک لیتی تھیں
وہ میرے چار سُو ہاتھوں کی ڈھال رکھتی تھی
اِک ایسی دُھن کہ نہیں پھر کبھی سُنی میں نے
وہ مُنفرد سا ہنسی میں کمال رکھتی تھی
اُسے ندامتیں میری کہاں ٌگوارہ تھیں
وہ میرے واسطے آساں سوال رکھتی تھی
بچھڑ کے اُس سے میں دُنیا کی ٹھوکروں میں
وہ پاس تھی تو مجھے لازاوال رکھتی تھی
وہ مُنتظر مِری رہتی تھی دھوپ میں سید
تمام نام ہی ناموں سے ملتے جلتے تھے
تمہارے نام سے مجھ کان کی تسلی ہوئی
محبت فرض ہے فرضی نہیں
سراسر مرض ہے مرضی نہیں۔۔۔
اس نے تحفے میں پائل قبول کر لی ہے
اب وہ چلے گی تو میرا عشق گونجے گا❤️😘
جب گلی میں بارش کا پانی جمع ہوتا دونوں ہاتھ اسطرف کرکے کہتی
ایک دن سمجھ جاے گا غور سے دیکھ ہمارے عکس میں کوئی تیسرا ھے
وہ بھی کیا جیتے ہیں جو چائے نہیں پیتے ہیں 🙄
ویسے آپس کی بات ہے آپ کتنے کپ پیتے ہیں 🤔
قاصد کے آتے آتے خط 💌اک اور لکھ🖋رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب ✍️میں
میری تقدیر میں جلنا ہے تو جل جاؤنگا
میں کوئی تیرا وعدہ تو نہیں جو بدل جاؤنگا
مجھکو نہ سمجھاؤ میری زندگی کے اصول
میں خود ہی ٹھوکر کھا کہ سمبھل جاؤنگا
آنکھ سے ور نہ ہوں دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزرجائے گا
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کہ وہ مجھ کو ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل کو چمک سکے گا کیا پھر بھی ترش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھئیے بات تھی کچھ محال بھی
مری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں مرے لئے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ، گاہ امید دائم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہش پہ تھے روح کے اور جال بھی
وہ چاہتا تھا، مگر پہلے میں نے چھوڑا ہاتھ
اُس کے حصے کی ندامت بھی اُٹھائی میں نے
حضرت جب بد گمانی ھو
پھر اتحاد نہیں رھتا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain