تم پوچھو اور میں بتاؤں نہیں اسے تو حالات نہیں
اک ذراسا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں
اسحاق خان
کہتے ہیں ہر چیز کی اک انتہا ہو تی ہے
پھر محبت کیوں کسی سے بے انتہا ہوتی ہے
اسحاق خان
محبت میں کب کوئی اصول ہوتا
محبوب جسا بھی ہو قبول ہوتا ہے
اسحاق خان
میرے لفظوں سے نہ کر میرے کردار کا فیصلہ
تیرا وجود ٹوٹ جائے گا میری خققیت ڈھونڈنے ڈھونڈنے
اسحاق خان
میرے نزدیک آگر دیکھ میرے انداز کی شدت
میرا دل کتنا دھڑکتاہے صرف تیری نام کے ساتھ
اسحاق خان
وہ مایوسی کے عالم میں زرا بھی حوصلہ دیتا
تو ہم کاغذ کی کشتی پر سمندر میں اتر جاتے
اسحاق خان
شرارت لے کر آنکھوں میں وہ اس کا دیکھنا توبہ
میں نظروں پے جمی نظریں جھکانا بھول جاتا ہوں
اسحاق خان
اس کے اندازہ گفتگو میں بات ہی کچھ ایسی تھی
اگر دل نہ دیتے تو جان چلی جاتی
اسحاق خان
تیرے بعد ہم نے دل کا دروازہ کھولاہی نہیں
ورنہ بہت سے لوگ ائے تھے اس گھر کو سجانے کے لیے
اسحاق خان
غم میں ملاکے خو شی کے رنگ
آو ذزاجینے کی اداکاری کی جائے
اسحاق خان
میرے بعد بھی چلتے رہینگے قافلے یہاں
اک تارے کے ٹوٹ جانے سے فلک تنہا نہیں ہوتا
اسحاق خان
کوئی کتنا ہی خوش مزاج کیوں نہ ہو
رلا دیتی ہے کس کی کمی کھبی کھبی
اسحاق خان
Good morning to All Friends