دل ڈوبا ہوا آنکھ میری نم ہے دسمبر جانے کا تیرے مجھ کو بڑا غم ہے دسمبر لگتا ہے کہ تو رخت سفر باندھ چکا ہے زلفوں میں تیری آج کوئ خم ہے دسمبر تصویر تیری کھینچ کے رکھو۔ گا میں دل میں پھر جاکے دکھنا تو اگر دم ہے دسمبر بس تجھ سے بچھڑنے کو میرا دل نہی کرتا بس تجھ سے بچھڑنے کا مجھے غم ہے دسمبر تو ساتھ میرا چھوڑ کے جانے کو لگا ہے یہ جبر بتا مجھ پہ تیرا کم ہے دسمبر