سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا . دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا . اے میں سو جان سے اس طرز تکلم کے نثار پھر تو فرمائیے کیا آپ نے ارشاد کیا . اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا . میری ہر سانس ہے اس بات کی شاہد اے موت میں نے ہر لطف کے موقع پہ تجھے یاد کیا . مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا . کچھ نہیں اس کے سوا جوشؔ حریفوں کا کلام وصل نے شاد کیا ہجر نے ناشاد کیا