آنکھ میں اشک سموتے ہوئے مر جاتے ہیں اتنا روتے ہیں کہ روتے ہوئے مر جاتے ہیں موت کا سامنا کرنا نہیں پڑتا اُن کو اچھے رہتے ہیں جو سوتے ہوئے مر جاتے ہیں اے مسیحا تو کہاں ہے کہ مجھ ایسے بیمار اس جہاں میں ترے ہوتے ہوئے مر جاتے ہیں پیڑ سے ٹیک لگاتے ہیں گھڑی بھر کے لیے زخم کو خون سے دھوتے ہوئے مر جاتے ہیں جس کی لہروں سے گزرتی ہیں ہماری لہریں ہم وہی بحر بلوتے ہوئے مر جاتے ہیں چاند تحلیل نہیں ہوتا کبھی پانی میں عکس تمثیل نیوتے ہوئے مر جاتے ہیں نیند اسرار اُلٹ دیتی ہے اپنے اور ہم خواب کا ہار پروتے ہوئے مر جاتے ہیں بوجھ سانسوں کا کبھی کم نہیں ہوتا آزر سب اسی بوجھ کو ڈھوتے ہوئے مر جاتے ہیں دلاور علی آزر
عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے سمندروں کے لیے مچھلیاں بناتے تھے مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا پھر اُس کے بعد وہی چابیاں بناتے تھے فضول وقت میں وہ سارے شیشہ گر مل کر سہاگنوں کے لیے چوڑیاں بناتے تھے ہمارے گاؤں میں دو چار ہندو درزی تھے نمازیوں کے لیے ٹوپیاں بنایا کرتے تھے ؎ لیاقتؔ جعفری
لوگوں کو بتایا گیا کہ وہ اپنے خدوخال، گورے رنگ اور لمبے قد کی وجہ سے خوبصورت لگتے ہیں۔ حالانکہ ہر وہ انسان خوبصورت ہے جو ایک ہمدرد روح اور خوبصورت مسکراہٹ کا مالک ہے
ترستی ہوں میں سننے کو ترا لہجہ نہیں ملتا زمانے میں کوئی مجھ کو ترے جیسا نہیں ملتا ترے تک پہنچنے کی سب یہ تدبیریں ہیں لاحاصل کبھی ہمت نہیں رہتی کبھی رستہ نہیں ملتا بڑی بے چین رہتی ہیں نگاہیں اس زمانے کی مگر دیدار کی خاطر ترا چہرہ نہیں ملتا تصورمیں تمہیں ہرپل سدامحسوس کرتی ہوں حقیقت میں تری خوشبو کا بھی جھونکا نہیں ملتا مری خواہش ہے جب چاہوں تمہیں دیکھوں تسلسل سے دکھادے جو تری صورت ایسا شیشہ نہیں ملتا ذہیں بھی تو بلا کا ہے ادائیں بھی قیامت ہیں کہوں کیوں نہ فخر سے پھر کوئی تجھ سا نہیں ملتا یہی عادت ہےبرسوں سےچلےآتے ہیں محفل سے کہ جس محفل میں اک پل بھی ترا چرچا نہیں ملتا مقدر بدلے جاتے ہیں دعاؤں سے عطاؤں سے دعا سے آزما لو تم تمہیں کیا کیا نہیں ملتا
اسے سمجھانا نہیں آتا مجھے سمجھنا نہیں آتا اسے روٹھنے کی عادت ہے مجھے منانا نہیں آتا وہ بہاروں کا موسم میں خزاں کی ہوا اے عشق تو پاگل ہے تجھے عاشق ڈھونڈ نا نہیں آتا
اسے کہنا کہ سر آنکھوں پر اب ترک تعلق بھی !! اسے کہنا کبھی پہلے تمہاری بات ٹالی ہے !! سو اب جو پھول اگنے ہیں وہ دنیاوی نہیں ہوں گے !! تمہارے پیروں کی مٹی چھان کر گملوں میں ڈالی ہے !!