یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں تو آ کے جا بھی چکا ہے میں انتظار میں ہوں مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں در فصیل کھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں بس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب رکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں منیرؔ دیکھ شجر چاند اور دیواریں ہوا خزاں کی ہے سر پر شب بہار میں ہوں
آئنہ اب جدا نہیں کرتا قید میں ہوں رہا نہیں کرتا مستقل صبر میں ہے کوہ گراں نقش عبرت صدا نہیں کرتا رنگ محفل بدلتا رہتا ہے رنگ کوئی وفا نہیں کرتا عیش دنیا کی جستجو مت کر یہ دفینہ ملا نہیں کرتا جی میں آئے جو کر گزرتا ہے تو کسی کا کہا نہیں کرتا ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے تخت خالی رہا نہیں کرتا عہد انصاف آ رہا ہے منیرؔ ظلم دائم ہوا نہیں کرتا
تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں یہ تو دنیا ہے مری جاں کئی دشمن کئی دوست تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امر بیل کوئی میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست یاد آئی ہے تو پھر ٹوٹ کے یاد آئی ہے کوئی گزری ہوئی منزل کوئی بھولی ہوئی دوست اب بھی آئے ہو تو احسان تمہارا لیکن وہ قیامت جو گزرنی تھی گزر بھی گئی دوست تیرے لہجے کی تھکن میں ترا دل شامل ہے ایسا لگتا ہے جدائی کی گھڑی آ گئی دوست بارش سنگ کا موسم ہے مرے شہر میں تو تو یہ شیشے سا بدن لے کے کہاں آ گئی دوست میں اسے عہد شکن کیسے سمجھ لوں جس نے آخری خط میں یہ لکھا تھا فقط آپ کی دوست
خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا جو چھوڑ گیا اس کو پلٹ کر نہیں دیکھا میری طرح تو نے شب ہجراں نہیں کاٹی میری طرح اس تیغ پہ کٹ کر نہیں دیکھا تو دشنۂ نفرت ہی کو لہراتا رہا ہے تو نے کبھی دشمن سے لپٹ کر نہیں دیکھا تھے کوچۂ جاناں سے پرے بھی کئی منظر دل نے کبھی اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا اب یاد نہیں مجھ کو فرازؔ اپنا بھی پیکر جس روز سے بکھرا ہوں سمٹ کر نہیں دیکھا
دشمن بہ نام دوست بنانا مجھے بھی ہے اس جیسا روپ اس کو دکھانا مجھے بھی ہے میرے خلاف سازشیں کرتا ہے روز وہ آخر کوئی قدم تو اٹھانا مجھے بھی ہے انگلی اٹھا رہا ہے تو کردار پر مرے تجھ کو ترے مقام پہ لانا مجھے بھی ہے نظریں بدل رہا ہے اگر وہ تو غم نہیں کانٹا اب اپنی رہ سے ہٹانا مجھے بھی ہے میں برف زادہ کب سے عجب ضد پہ ہوں اڑا سورج کو اپنے پاس بلانا مجھے بھی ہے
یہ جفائے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالم ترا حسن دست عیسیٰ تری یاد روئے مریم دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم سر کوئے دل فگاراں شب آرزو کا عالم تری دید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں وہ چمن جہاں گری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم یہ عجب قیامتیں ہیں ترے رہ گزر میں گزراں نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم نہ ہوا کہ جی اٹھیں ہم لو سنی گئی ہماری یوں پھرے ہیں دن کہ پھر سے وہی گوشۂ قفس ہے وہی فصل گل کا ماتم
کوئی دل درد سے خالی نہیں نہیں نہیں جناب عالی نہیں مجھکو خود سے عطا کرتا ھے وہ۔ میں کسی کے در کا سوالی نہیں۔ کوئی آئے اور ہمیں خبر نہ ہو۔ ارے اتنی بھی بے خیالی نہیں۔ کوئی دے گیا ہمیں سوغات دل تھی قیمتی شے پر سنبھالی نہیں۔ پیار میں عجلت بازی اچھی نہیں۔ عشق صبر طلب ھے جلالی نہیں۔ نجانے اسد واں کیسے پہنچی۔ آہ ! دل سے تو ہم نے نکالی نہیں۔
ان سے نظر ملانے کی جرعت نہیں رہی۔۔۔ دنیا کو منہ دکھانے کی جرعت نہیں رہی۔ مانا کہ غلط کرتا تھا وہ ساتھ اپنے مگر!!!۔ پھر بھی اسکو سمجھانے کی جرعت نہیں رہی۔ بارہا سوچا ہم نے کہ خود کو بدل ڈالیں ۔۔۔ مگر کوئی قدم اٹھانے کی جرعت نہیں رہی۔۔۔ کوئی تو دلا دو نجات ہمیں ان اندھیروں سے۔ کہ خود سر روشنی پانے کی جرعت نہیں رہی۔ آ ہ ! ہم اس طرح گرے اسد ان کی نگاھ سے۔ کہ پھر کبھی نظر ملانے کی جرعت نہیں رہی۔۔ 🥴
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا یوں تو ہر شام اُمیدوں میں گزر جاتی ہے آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا کبھی تقدیر کا ماتم، کبھی دنیا کا گِلہ منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا مُجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلہ نوحہ گری اِس قدر گردشِ ایام پہ رونا آیا جب ہُوا ذکر زمانے میں مسرت کا شکیل مُجھ کو اپنے دلِ ناکام پہ رونا آیا
Phir kahin dor se ik bar sada do mujko Meri tnhai ka ehsas dila do mujko Tum to chand ho tumhe meri zrort kya hai Main dia hon kisi chokhat pe jala do mujko.🥴