وارث شاہ بڑا عشق عشق تو کرنا اےکدی عشق دا گنجل کھول تے سعی تینوں مٹی وچ نہ رول دیواں دو پیار دے بول تو بول تے سعی سکھ گھٹ تے دردہزاراں ملن کدی عشق نو تکڑی تول تے سعی
مت توڑ تعلق جو تیری ذات سے ہے تو خفا میری کس بات سے ہے نہ الجھا کر مجھ سے اس ترا جب تو واقف میرے جذبات سے ہےمیں تجھ سے روٹھ کر جی لوں کس ترا میری ہر سانس وابستا تیرے نام سے ہے مت توڑ تعلق جو تیری ذات سے ہے تو خفا میری کس بات سے ہے
غزل کبھی یاد آے تو پوچھنا اپنی خلوت شام سے کسے عشق تھا تیرئ ذات سے کسے پیار تھا تیرے نام سے ذرا یاد کر کہ وہ کون تھا جو کبھی تمہیں بھی عزیز تھا وہ جو مر مٹا تیرے نام پہ وہ جو جی اٹھا تیرے نام سے ہمیں بے روخی کا نہیں گلا کہ یہی وفاوں کا ہے سلہ مگر ایسا جرم تھا کون سا گئے جو ہم دعا سلام سے کبھی یاد اے تو پوچھنا اپنی خلوت شام سے