1. رگوں کے اندر خون کی روانی کا نظام:
رگوں کا نظام دل کے ساتھ مل کر خون کی روانی کو برقرار رکھتا ہے۔
خون کی روانی کا آغاز شریانوں (Arteries) سے ہوتا ہے، جہاں آکسیجن سے بھرپور خون دل سے جسم تک پہنچتا ہے۔
خون جب جسم کے مختلف حصوں میں آکسیجن اور غذائیت فراہم کر دیتا ہے، تو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور فاضل مادے کے ساتھ واپس رگوں کے ذریعے دل کی طرف لوٹتا ہے۔
رگوں کے اندر موجود والوز (Valves) اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ خون دل کی جانب ہی بہے اور الٹ نہ ہو۔
2. رگوں کی رنگت کیوں نیلی لگتی ہے؟
رگیں نیلی نظر آتی ہیں کیونکہ جلد کے ذریعے روشنی مختلف طریقے سے جذب ہوتی ہے۔
خون اصل میں گہرے سرخ رنگ کا ہوتا ہے، لیکن روشنی کے انعکاس کی وجہ سے رگیں نیلی دکھائی دیتی ہیں۔
5. رگوں کی صحت کے لیے تجاویز:
متوازن غذا کھائیں، خاص طور پر ایسی غذا جو آکسیجن اور غذائیت سے بھرپور ہو۔
روزانہ ورزش کریں تاکہ خون کی روانی بہتر ہو۔
طویل وقت تک کھڑے یا بیٹھے رہنے سے گریز کریں۔
پانی زیادہ پئیں تاکہ خون پتلا اور روانی میں رہے۔
سرفیس رگیں (Superficial Veins): جلد کے قریب ہوتی ہیں اور عام طور پر نظر آتی ہیں۔
گہری رگیں (Deep Veins): یہ عضلات کے قریب یا ان کے اندر واقع ہوتی ہیں اور زیادہ خون لے کر جاتی ہیں۔
3. خون کی روانی:
رگوں میں خون کا دباؤ (pressure) کم ہوتا ہے، اس لیے خون دل کی طرف دھیرے دھیرے حرکت کرتا ہے۔
پٹھوں کی حرکت اور والو کی موجودگی خون کو صحیح سمت میں لے جانے میں مدد دیتی ہے۔
4. رگوں کی بیماریوں:
ویریکوز رگیں (Varicose Veins): یہ رگوں کے والو کی خرابی کی وجہ سے ہوتی ہیں، جس سے خون رگوں میں جمع ہو جاتا ہے۔
ڈیپ وین تھرومبوسس (DVT): گہری رگوں میں خون کے لوتھڑے بننے کی بیماری، جو خطرناک ہو سکتی ہے۔
ویسکلر مسائل: جن میں رگوں کی دیواروں میں سوجن یا دیگر تبدیلیاں آتی ہیں۔
رگیں (Veins) خون کی نالیاں ہیں جو جسم کے مختلف حصوں سے خون کو واپس دل کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ خون میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر فاضل مادوں کو صاف کرنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ رگوں کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1. ساخت:
رگوں کی دیواریں شریانوں کے مقابلے میں پتلی اور زیادہ لچکدار ہوتی ہیں۔
ان میں ایک طرفہ والو (valves) ہوتے ہیں جو خون کو صرف ایک ہی سمت میں لے جانے میں مدد دیتے ہیں اور اس کے الٹ بہاؤ کو روکتے ہیں۔
2. اقسام:
رگوں کی مختلف اقسام ہیں:
پلمونری رگیں (Pulmonary Veins): یہ خون کو پھیپھڑوں سے آکسیجن کے ساتھ بھر کر دل کے بائیں حصے میں لے جاتی ہیں۔
سپرئیر اور انفیریئر وینا کاوا (Superior & Inferior Vena Cava): یہ جسم کے بالائی اور زیریں حصوں سے خون دل کی طرف لاتی ہیں۔
سوال: انسانی جسم میں کل کتنی رگیں ہوتیں ہیں؟
جواب: انسانی جسم میں رگوں کی کل تعداد کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ رگوں کا جال پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے،لیکن عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر انسانی جسم کی تمام رگوں کو سیدھا کیا جائے تو ان کی لمبائی تقریباً 1,00,000 کلومیٹر تک ہو سکتی ہے۔
رگوں کو تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1. شریانیں (Arteries): یہ خون کو دل سے جسم کے مختلف حصوں تک لے جاتی ہیں۔
2. وریدیں (Veins): یہ خون کو جسم کے مختلف حصوں سے واپس دل تک لے جاتی ہیں۔
3. شعری رگیں (Capillaries): یہ بہت باریک رگیں ہیں جو شریانوں اور وریدوں کو جوڑتی ہیں اور خلیوں کو آکسیجن اور غذائی اجزاء فراہم کرتی ہیں۔
رگوں کا یہ پورا نظام انسانی جسم کے ہر حصے تک خون پہنچانے اور واپس لانے کے لیے کام کرتا ہے۔
اس نے چہرے سے یوں نقاب اتارا
دل نے ٹھہر کے پھر سلام اتارا
جانے کس حال میں وہ ہم سے ملا
ہر نظر میں تھا ایک جام اتارا
روشنی پھیل گئی چاندنی کی طرح
جب لبوں سے وہ تبسم خمار اتارا
وہ جو راز تھا، سب نگاہوں میں تھا
دل کی دھڑکن نے ہر کلام اتارا
کیا بتائیں یہ عشق کیسا تھا
ہر ملاقات نے الزام اتارا
کبھی یوں بھی آئے نقاب اُٹھا کے
کہ دیکھیں سبھی چاند شرما کے
محبت کی رسمیں نبھاتا رہے گا
چلے آئے گا دل کو بہلا کے
تمہارے بنا یہ جہاں لگ رہا ہے
کہ جیسے چراغ ہو بجھا کے
جو پردے میں چھپا ہے وہ راز بھی کہہ دے
کبھی پاس آ، دل کو سمجھا کے
کہاں تک چھپاؤ گے، یہ حسنِ نایاب
نقاب سے اُتر، دل کو بہکا کے
کبھی نقاب اُٹھاؤ تو بات بن جائے
سحر قریب تو آؤ تو بات بن جائے
تمہارا حسن فقط خواب ہے نظر کے لیے
کبھی قریب تو آؤ تو بات بن جائے
تمہارے بعد یہ دنیا عجیب لگتی ہے
کبھی گلے سے لگاؤ تو بات بن جائے
تمہارا لمس دل و جاں کو تازگی دے گا
کبھی قریب تو آؤ تو بات بن جائے
نگاہوں سے نہ ٹالوں سوال چاہت کا
کبھی ہاں بھی تو کہو تو بات بن جائے
پیتے ہیں مے تو ہم کو مے خانہ چاہیے
واعظ کے وعظ سے ہمیں بہانہ چاہیے
ٹوٹا جو دل تو ہم نے دل تھام کر کہا
اب تو شراب کا کوئی پیمانہ چاہیے
راتوں کو جاگتے ہیں غمِ عشق میں صنم
ساقی، علاجِ غم کا خزانہ چاہیے
دنیا کے دکھ کا اب علاج ممکن نہیں
بس ایک جامِ مے کا روانہ چاہیے
رندوں کے دل کی راحت ہے مے خانہ میر
واعظ کو پھر کسی کا نشانہ چاہیے
سوچتا ہوں وہ کتنے معصوم تھے
کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے
پیار کی داستاں بن گئی رت جگے
چاندنی کھو گئی دیکھتے دیکھتے
سوچتا ہوں وہ کتنے معصوم تھے
کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے
زندگی بھی غموں کی اماں بن گئی
وقت قاتل بنا دیکھتے دیکھتے
سوچتا ہوں وہ کتنے معصوم تھے
کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے
چاند میں چھپ گیا دھوپ کا حال بھی
رات دن کھو گئے دیکھتے دیکھتے
سوچتا ہوں وہ کتنے معصوم تھے
کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے
پیار کی داستاں بن گئی رت جگے
چاندنی کھو گئی دیکھتے دیکھتے
سوچتا ہوں وہ کتنے معصوم تھے
کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے
تیری آنکھوں کا دریا بھی اترنا ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی، بچھڑنا بھی ضروری تھا
تجھے ہم مل بھی جاتے، تو جدائی کا دکھ کہاں ہوتا
نہ یہ آنسو ہوتے دل جلانے والے
نہ یہ غم ہوتے ہمیں آزمانے والے
تیری آنکھوں کا دریا بھی اترنا ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی، بچھڑنا بھی ضروری تھا
تیرے دل کا سمندر بھی نہ بہتا تو کیا ہوتا
یہ دل کا دُکھ چھپانا مشکل تھا
میرے ہونٹوں پہ تیرا نام ہی رہتا
تیری باتوں میں دل کا جہاں رہتا
تیری آنکھوں کا دریا بھی اترنا ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی، بچھڑنا بھی ضروری تھا
تجھے ہم یاد آئیں گے، یہ وعدہ بھی ضروری تھا
ہمارے پیار کے قصے زمانے تک رہیں گے
یہ لازم تھا کہ خوابوں کے خزانے تک رہیں گے
تیری آنکھوں کا دریا بھی اترنا ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی، بچھڑنا بھی ضروری تھا
تو ہی ضروری ہے، ضروری ہے
زندگی میں تو ہی ضروری ہے
تجھ پہ ہے حق میرا
تجھ کو حق ہے میرا
یہ دل تو ہے، میرا مگر
تو ہی اس دل میں رہتا ہے
تو ہی ضروری ہے، ضروری ہے
زندگی میں تو ہی ضروری ہے
تیرا میرا رشتہ، پرانا
دل سے دل کا، بہانہ
جانے کب کا، فسانہ
یادوں میں تو رہتا ہے
تو ہی ضروری ہے، ضروری ہے
زندگی میں تو ہی ضروری ہے
چاہتوں کے سبھی سلسلے
تجھ سے جڑنے لگے
دل کو لگنے لگی
زندگی جیسی ہے
تو ہی ضروری ہے، ضروری ہے
زندگی میں تو ہی ضروری ہے
یہ رات یہ تنہائی، یہ دل کے دھڑکنے کی آواز
دل سوچ رہا ہے کہ تم آجاؤ گی شاید
خاموشی کے دامن میں چھپا ہے تیرا چہرہ
آنکھوں کو یقین ہے کہ تم آجاؤ گی شاید
دھوکا دے رہی ہے مجھے دل کی بے قراری
یہ شوق ہے میرا کہ تم آجاؤ گی شاید
ہر سایہ، ہر منظر تیرا خواب دکھائے
انداز یہی ہے کہ تم آجاؤ گی شاید
یہ چاند کی کرنیں، یہ ستاروں کا جھرمٹ
سب راز بتاتے ہیں کہ تم آجاؤ گی شاید
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اُس کے نگر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
کتنے چراغ بجھے کتنے ستارے ڈوبے
کیا ستم ہے کہ ترے پیار کی بارش نہ ہوئی
برگ و گل مرجھائے، رنگ ہوا اُڑ گیا
آج تک موسمِ گل ہم پہ نوازش نہ ہوئی
کتنی صدیاں گزریں، کتنے ہمدم گزرے
پھر بھی وہ رات، وہ چاہت کی تلاش نہ ہوئی
اب کے بہاروں نے بھی دل کو نہ بہلایا
اب کے بھی یادوں کی گلیوں میں خنک رات رہی
کتنے چراغ بجھے کتنے ستارے ڈوبے
کیا ستم ہے کہ ترے پیار کی بارش نہ ہوئی
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
جو ہم پہ گزری، سو گزری، مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضورِ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
دل امید توڑا ہے کسی نے
ہمیں برباد چھوڑا ہے کسی نے
نہ کوئی خواب ہے نہ کوئی سپنا
ہمارا دل توڑا ہے کسی نے
محبت کی امیدیں تھیں جو بھی
سبھی ارمان توڑا ہے کسی نے
ہوا ہے دل کا حال ایسا
کہ جیسے ساز توڑا ہے کسی نے
وفا کے نام پر یہ صدمے
ہمیں ہر بار توڑا ہے کسی نے
جو دل کا حال ہے،ہم کیا سنائیں
کہ ہر احساس توڑا ہے کسی نے
اُس نے ھم کو گمان میں رکھا
اور پھر کم ھی دھیان میں رکھا
کیا قیامت نمو تھی وہ جس نے
حشر اُس کی اٹھان میں رکھا
جوششِ خوں نے اپنے فن کا حساب
ایک چوب،اک چٹان میں رکھا
لمحے لمحے کی اپنی تھی اِک شان
تُو نے ھی ایک شان میں رکھا
ھم نے پیھم قبول و رد کر کے
اُس کو اک امتحان میں رکھا
تم تو اس یاد کی امان میں ھو
اُس کو کِس کی امان میں رکھا
اپنا رشتہ زمیں سے ھی رکھو
کچھ نھیں آسمان میں رکھا
(جون ایلیا | کتاب: گمان | غزل)
🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊🎉🎊
سب دوستوں کوایڈوانس نیاسال دوھزار پچیس مبارک ھو۔
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں
ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستا ہو جائیں
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
احمد فراز
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain