Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانئے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
ہاں ہاں تجھے کیا کام مری شدت غم سے
ہاں ہاں نہیں مجھ کو ترے دامن کی ہوا یاد
میں ترک رہ و رسم جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزش پا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے
یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
اسی کائنات میں اے جگرؔ کوئی انقلاب اٹھے گا پھر
کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

سبھی انداز حسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں
اس کی راتوں کا انتقام نہ پوچھ
جس نے ہنس ہنس کے دن گزارے ہیں
اے سہاروں کی زندگی والو
کتنے انسان بے سہارے ہیں
لالہ و گل سے تجھ کو کیا نسبت
نا مکمل سے استعارے ہیں
ہم تو اب ڈوب کر ہی ابھریں گے
وہ رہیں شاد جو کنارے ہیں
شب فرقت بھی جگمگا اٹھی
اشک غم ہیں کہ ماہ پارے ہیں
آتش عشق وہ جہنم ہے
جس میں فردوس کے نظارے ہیں
وہ ہمیں ہیں کہ جن کے ہاتھوں نے
گیسوئے زندگی سنوارے ہیں
حسن کی بے نیازیوں پہ نہ جا
بے اشارے بھی کچھ اشارے ہیں
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

بے کیف دل ہے اور جیے جا رہا ہوں میں
خالی ہے شیشہ اور پیے جا رہا ہوں میں
پیہم جو آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں
دولت ہے غم زکوٰۃ دئیے جا رہا ہوں میں
مجبوری کمال محبت تو دیکھنا
جینا نہیں قبول جیے جا رہا ہوں میں
وہ دل کہاں ہے اب کہ جسے پیار کیجیے
مجبوریاں ہیں ساتھ دئیے جا رہا ہوں میں
رخصت ہوئی شباب کے ہم راہ زندگی
کہنے کی بات ہے کہ جیے جا رہا ہوں میں
پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

بیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
سحر ہونے کو ہے بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملہ و اسباب ماتم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ اے حسن دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی مے خانہ و صہبا وہی ساغر وہی شیشہ
مگر آواز نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہیں شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی شورش ہے لیکن جیسے موج تہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

برابر سے بچ کر گزر جانے والے
یہ نالے نہیں بے اثر جانے والے
نہیں جانتے کچھ کہ جانا کہاں ہے
چلے جا رہے ہیں مگر جانے والے
مرے دل کی بیتابیاں بھی لیے جا
دبے پاؤں منہ پھیر کر جانے والے
ترے اک اشارے پہ ساکت کھڑے ہیں
نہیں کہہ کے سب سے گزر جانے والے
محبت میں ہم تو جیے ہیں جئیں گے
وہ ہوں گے کوئی اور مر جانے والے
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
یہ تو نے کہا کیا اے ناداں فیاضی قدرت عام نہیں
تو فکر و نظر تو پیدا کر کیا چیز ہے جو انعام نہیں
یارب یہ مقام عشق ہے کیا گو دیدہ و دل ناکام نہیں
تسکین ہے اور تسکین نہیں آرام ہے اور آرام نہیں
کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں
آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں
آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ
اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں
زاہد نے کچھ اس انداز سے پی ساقی کی نگاہیں پڑنے لگیں
مے کش یہی اب تک سمجھے تھے شائستہ دور جام نہیں
عشق اور گوارا خود کر لے بے شرط شکست فاش اپنی
دل کی بھی کچھ ان کے سازش ہے تنہا یہ نظر کا کام نہیں

MAKT_PAK
 

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
نکھرتا آ رہا ہے رنگ گلشن
خس و خاشاک جلتے جا رہے ہیں
وہیں میں خاک اڑتی دیکھتا ہوں
جہاں چشمے ابلتے جا رہے ہیں
چراغ دیر و کعبہ اللہ اللہ
ہوا کی ضد پہ جلتے جا رہے ہیں
شباب و حسن میں بحث آ پڑی ہے
نئے پہلو نکلتے جا رہے ہیں
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

آج کیا حال ہے یا رب سر محفل میرا
کہ نکالے لیے جاتا ہے کوئی دل میرا
سوز غم دیکھ نہ برباد ہو حاصل میرا
دل کی تصویر ہے ہر آئینۂ دل میرا
صبح تک ہجر میں کیا جانیے کیا ہوتا ہے
شام ہی سے مرے قابو میں نہیں دل میرا
مل گئی عشق میں ایذا طلبی سے راحت
غم ہے اب جان مری درد ہے اب دل میرا
پایا جاتا ہے تری شوخیٔ رفتار کا رنگ
کاش پہلو میں دھڑکتا ہی رہے دل میرا
ہائے اس مرد کی قسمت جو ہوا دل کا شریک
ہائے اس دل کا مقدر جو بنا دل میرا
کچھ کھٹکتا تو ہے پہلو میں مرے رہ رہ کر
اب خدا جانے تری یاد ہے یا دل میرا
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں
یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں
وہ اب چل چکے ہیں وہ اب آ رہے ہیں
وہ از خود ہی نادم ہوئے جا رہے ہیں
خدا جانے کیا کیا خیال آ رہے ہیں
ہمارے ہی دل سے مزے ان کے پوچھو
وہ دھوکے جو دانستہ ہم کھا رہے ہیں
جفا کرنے والوں کو کیا ہو گیا ہے
وفا کر کے بھی ہم تو شرما رہے ہیں
وہ عالم ہے اب یارو اغیار کیسے
ہمیں اپنے دشمن ہوئے جا رہے ہیں
مزاج گرامی کی ہو خیر یارب
کئی دن سے اکثر وہ یاد آ رہے ہیں
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی
سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن
اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی
عشق پر کچھ نہ چلا دیدۂ تر کا قابو
اس نے جو آگ لگا دی وہ بجھائی نہ گئی
پڑ گیا حسن رخ یار کا پرتو جس پر
خاک میں مل کے بھی اس دل کی صفائی نہ گئی
کیا اٹھائے گی صبا خاک مری اس در سے
یہ قیامت تو خود ان سے بھی اٹھائی نہ گئی
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں
یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں
ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں
مرگ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں
جگر مراد آبادی

MAKT_PAK
 

سکوں پسند جو دیوانگی مری ہوتی
خبر کسی کو نہ انجام عشق کی ہوتی
غلط بتاتے ہو ناصح جو میری فریادیں
خطا معاف محبت کسی سے کی ہوتی
قمر جلالوی

MAKT_PAK
 

پڑھ چکے حسن کی تاریخ کو ہم تیرے بعد
عشق آگے نہ بڑھا ایک قدم تیرے بعد
آج تک پھر کوئی تصویر نہ ایسی کھینچی
جیسے کھا لی ہو مصور نے قسم تیرے بعد
قمر جلالوی

MAKT_PAK
 

بجز تمہارے کسی سے کوئی سوال نہیں
کہ جیسے سارے زمانے سے بول چال نہیں
یہ سوچتا ہوں کہ تو کیوں نظر نہیں آتا
مری نگاہ نہیں یا ترا جمال نہیں
تجاہل اپنی جفاؤں پہ اور محشر میں
خدا کے سامنے کہتے ہو تم خیال نہیں
یہ کہہ کے جلوے سے بے ہوش ہو گئے موسیٰ
نگاہ اس سے ملاؤں مری مجال نہیں
میں ہر بہار گلستاں پہ غور کرتا ہوں
جلا نہ ہو مرا گھر ایسا کوئی سال نہیں
خطا معاف کہ سرکار منہ پہ کہتا ہوں
بغیر آئینہ کہہ لو مری مثال نہیں
میں چاندنی میں بلاتا تو ہوں وہ کہہ دیں گے
قمرؔ تمہیں مری رسوائی کا خیال نہیں
قمر جلالوی

MAKT_PAK
 

یہ رستے میں کس سے ملاقات کر لی
کہاں رہ گئے تھے بڑی رات کر لی
شب غم کبھی در کو اٹھ اٹھ کے دیکھا
کبھی ان کی تصویر سے بات کر لی
ہم اہل جنوں کا ٹھکانا نہ پوچھو
کہیں دن نکالا کہیں رات کر لی
چلے آئے موسیٰ کو جلوہ دکھانے
قیامت سے پہلے ملاقات کر لی
قمرؔ اپنے گھر ان کو مہماں بلا کر
بلا چاند کے چاندنی رات کر لی
قمر جلالوی

MAKT_PAK
 

حسن کب عشق کا ممنون وفا ہوتا ہے
لاکھ پروانہ مرے شمع پہ کیا ہوتا ہے
شغل صیاد یہی صبح و مسا ہوتا ہے
قید ہوتا ہے کوئی کوئی رہا ہوتا ہے
جب پتا چلتا ہے خوشبو کی وفاداری کا
پھول جس وقت گلستاں سے جدا ہوتا ہے
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے
خون ہوتا ہے سحر تک مرے ارمانوں کا
شام وعدہ جو وہ پابند حنا ہوتا ہے
چاندنی دیکھ کے یاد آتے ہیں کیا کیا وہ مجھے
چاند جب شب کو قمرؔ جلوہ نما ہوتا ہے
قمر جلالوی

MAKT_PAK
 

مرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا
نشیمن ہو نہ ہو یہ تو فلک کا مشغلہ ٹھہرا
کہ دو تنکے جہاں پر دیکھنا بجلی گرا دینا
میں اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے
کوئی فریاد والا آ رہا ہے راستہ دینا
اجازت ہو تو کہہ دوں قصۂ الفت سر محفل
مجھے کچھ تو فسانہ یاد ہے کچھ تم سنا دینا
میں مجرم ہوں مجھے اقرار ہے جرم محبت کا
مگر پہلے تو خط پر غور کر لو پھر سزا دینا
ہٹا کر رخ سے گیسو صبح کر دینا تو ممکن ہے
مگر سرکار کے بس میں نہیں تارے چھپا دینا
یہ تہذیب چمن بدلی ہے بیرونی ہواؤں نے
گریباں چاک پھولوں پر کلی کا مسکرا دینا
قمرؔ وہ سب سے چھپ کر آ رہے ہیں فاتحہ پڑھنے
کہوں کس سے کہ میری شمع تربت کو بجھا دینا
قمر جلالوی

MAKT_PAK
 

کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے ان کو شب فرقت والوں سے
وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں
پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں ہے بھی تو فقط رسوائی کا
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں
تاروں کی بہاروں میں بھی قمرؔ تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں
قمر جلالوی

MAKT_PAK
 

بحر ہند کے کنارے واقع ممالک اور علاقے
افریقہ
جنوبی افریقا، موزمبیق، مڈغاسکر، (غے یونیوں)، موریشس، مایوٹ، اتحاد القمری (کامروس)، تنزانیہ، سیچیلیس، کینیا، صومالیہ، جبوتی، اریتریا، سوڈان، مصر
ایشیا
عراق، ایران، پاکستان، بھارت، مالدیپ، برطانوی بحرہند خطہ، سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار (برما)، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، جزائر کوکوس، جزیرہ کرسمس انڈونیشیا
آسٹریلیشیا
مشرقی تیمور، آسٹریلیا
جنوبی بحر ہند
آسٹریلیا کا پرچم جزیرہ ہرڈ و جزائر مکڈونلڈ، سرزمین جنوبی فرانسیسیہ و انٹارکٹیکا