میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر
کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا
تو آسمان کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
زمیں ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا
بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسنؔ
اس آئنے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا
محسن نقوی
https://youtu.be/K5Y5cnMXqDg?si=yXsHC--FUgkSuWvP
۔
۔
۔
بچی سالن لینے اپنے پڑوس گئی سہیلی کے باپ امام مسجد نے اپنی بیٹی جیسی شاگردہ کا ریپ کر دیا۔
بچے یہ ویڈیو بالکل نہ دیکھیں۔
https://fb.watch/qqH9OnNOUP/?mibextid=clAStenag2xWjlf4
.
.
.
POWER OF 💰
😂
https://youtu.be/giUI3gPvzb0?si=zuQIReQIaDbfiKO4
۔
۔
۔
بچے یہ ویڈیو نہ دیکھیں۔
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
از سر بالیں من بر خیز اے نادان طبیب
درد مند عشق را دارو بجز دیدار نیست
ابر را با دیدۂ گریان من نسبت مکن
نسبتت با رود کے باران خونبار نیست
شاد اے دل کہ فردا برسر بازار عشق
مژدۂ قتل ست گرچہ وعدئے دیدار نیست
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی میکند
آرے آرے میکنم با خلق عالم کار نیست
امیر خسرو
न चादर बड़ी कीजिये
न ख्वाहिशें दफन कीजिये
चार दिन की ज़िन्दगी है
बस चैन से बसर कीजिये
न परेशान किसी को कीजिये
न हैरान किसी को कीजिये
कोई लाख गलत भी बोले
बस मुस्कुरा कर छोड़ दीजिये
न रूठा किसी से कीजिये
न झूठा वादा किसी से कीजिये
कुछ फुरसत के पल निकालिये
कभी खुद से भी मिला कीजिये
یہ مکتب کا پڑھا سب ہی بھلا دیتا ہوں
زندگی اپنا سبق خود ہی سکھا دیتی ہے
ایک بات پر ایمان رکھیں جو انسان ہمارے حق میں بہتر نہ ہو
اللہ اس انسان کو ہم سے دور کر دیتا ہے۔
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
فیض احمد فیض
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
فیض احمد فیض
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
فیض احمد فیض
غزل
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھکو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اسکو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اسکی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اسکی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
شاعرہ:پروین شاکر
رمز
تم جب آؤ گی،تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ھے مجھ پر
ان میں اک رمز ھے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدہ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
شاعر:جون ایلیا
کلیاتِ اقبال
بتاؤں تُجھکو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جُنوں
طلوع ہے صفَتِ آفتاب اس کا غروب
یگانہ اور مثالِ زمانہ گُونا گُوں!
نہ اس میں عصرِ رواں کی حیا سے بیزاری
نہ اس میں عہدِ کُہن کے فسانہ و افسوں
حقائقِ اَبدی پر اساس ہے اس کی
یہ زندگی ہے،نہیں ہے طلسمِ افلاطوں!
عناصر اسکے ہیں رُوح القُدُس کا ذوقِ جمال
عجَم کا حُسنِ طبیعت،عَرب کا سوزِ دُروں
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللّٰہ علیہ
تن بہ تقدیر
اسی قُرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
تن بہ تقدیر ہے آج اُنکے عمل کا انداز
تھی نہاں جنکے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھا جو ناخُوب،بتدریج وہی خُوب ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
دیوانِ غالب
بدتر از ویرانہ ہے فصلِ خزاں میں صحنِ باغ
خانۂ بلبل بغیر از خندۂ گل بے چراغ
پتّا پتّا اب چمن کا انقلاب آلودہ ہے
نغمۂ مرغِ چمن زا ہے صداۓ بوم و زاغ
ہاں بغیر از خوابِ مرگ آسودگی ممکن نہیں
رختِ ہستی باندھ تا حاصل ہو دنیاۓ فراغ
شورِ طوفانِ بلا ہے خندۂ بے اختیار
کیا ہے گل کی بے زبانی کیا ہے یہ لالے کا داغ
چشمِ پُر نم رہ، زمانہ منقلِب ہے اے اسدؔ
اب یہی ہے بس مے شادی سے پُر ہونا ایاغ
مرزا اسد اللّٰہ خان غالب

Duniya ka sub sy fair business
.
.
.
Ludo game maien jua khelny waly log es number py contact karain.
00923135852238
This is my personal number.

Qismt bhi bri kutti kamini chez hai,kahi py bhi dhoka dy sakti hai aor kahi py bhi kanglon ko banglon ka malik bna daiti hai.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain