جو سر جھکا کے ترے سامنے کھڑا ہوا ہوں
میں زندگی کے لیے جا بجا مَرا ہوا ہوں
زمانے بھر میں مرا قحط پڑ گیا تو کُھلا
کسی کے پاس مَیں بہتات میں پڑا ہوا ہوں
آئی ہے ہاتھ دولتِ زر بھول سب گئے
وہ بات پہلے والی نہیں ہے جناب میں
شہزاد بے وفا نہیں ہوں میں یہی لکھا
اس نے تو میرے اس اسی خظ کے جواب میں
ایک عورت اس مرد کے چہرے کو جانتی ہے جس سے وہ پیار کرتا ہے جیسے نااخت کھلے سمندر کو جانتا ہے