دِلِ بےتاب کو دھڑکن عنایت کیوں نہیں کرتے
محبت ہے تو پھر کھُل کے وضاحت کیوں نہیں کرتے
بڑا ہے شوق جھیلوں پر تمہیں جگنو پکڑنے کا
وہ آنکھیں خوبصورت ہیں سیاحت کیوں نہیں کرتے
کہاں ہے اب وہ گلیوں میں کھلونے بانٹنے والا
ہمارے دور کے بچے شرارت کیوں نہیں کرتے
دلوں میں نفرتیں بھر کے کدھر سے یار لاتے ہیں
مجھے لوگوں پہ حیرت ہے محبت کیوں نہیں کرتے
سکونِ قلب کی کیونکر دعا کرتے نہیں آ کر
مریضِ مرضٍ وحشت کی عیادت کیوں نہیں کرتے
تمہاری سُرخ آنکھیں یہ بتاتی ہیں اناڑی ہو
الم میں مسکرانے کی ریاضت کیوں نہیں کرتے
عاطف جاوید عاطف
میں لوگو سے محبت میں انائیں چھوڑ دیتا ہوں
وفائیں یاد رکھتا ہوں جفائیں چھوڑ دیتا ہوں
کھُلے رکھتا ہوں دل کے راستے ناراض لوگوں پہ
میں واپس آنے والوں کی خطائیں چھوڑ دیتا ہوں
میں سب لوگوں سے ملتا ہوں ادب سے بات کرتا ہوں
یہ شہرت اور بُلندی کی ہوائیں چھوڑ دیتا ہوں
تکبُر شور کرتا ہے کرو تذلیل لوگوں کی
میں اپنے نفس کی ساری صدائیں چھوڑ دیتا ہوں
کوئی دل کو دُکھائے مُسکرا کے بات کرتا ہوں
نبٌی کو یاد رکھتا ہوں خطائیں چھوڑ دیتا ہوں
شاعر افتخار افی