ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا سخت بے اعتبار تھے ہم تو فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی فلاں کے زخم اچھے تھے فلاں سے وفا اخلاص قربانی محبت اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا دل بھی یارب کئی دیے ہوتے
یہ زندگی جو پکارے تو شک سا ہوتا ہے کہیں ابھی تو مجھے خود کشی نہیں کرنی
عشق میں کون بتا سکتا ہے کس نے کس سے سچ بولا ہے
کوئی خودکشی کی طرف چل دیا اداسی کی محنت ٹھکانے لگی
میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں پھر اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ اداسی بال کھولے سو رہی ہے
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
میں صرف محبت کا طلب گار تھا لیکن اِس میں تو بہت کام اضافی نکل آئے
تیرے آستاں کو بھی رنگ دوں، تیری داستاں کو بھی رنگ دوں میرے پاس خونِ جگر تو ہے، مگر اتنا خونِ جگر نہیں!
مجھے لمبی لمبی چھوڑنے کی عادت ہے۔۔ وہ بھی لمبی تھی اسلیے اسے چھوڑ دیا۔۔
بچھڑ گٸ تھی وہ مجھ سے رات خواب میں۔۔ میں نے سارا دن سو کر دیکھا وہ پھر نہیں آٸ