اب مگر کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں ہو سکتا
اپنے جزبوں سے یہ رنگین شرارت نہ کرو
کتنی معصوم ہو نازک ہو حماقت نہ کرو
بارہا تم سے کہا تھا کہ محبت نہ کرو
🖤
! ضابطے محبت کے
طے ہوئے تھے یوں جاناں
روٹھنا منانا پر
چھوڑ کر نہیں جانا
پھر یہ ہجر کیسا ہے
پھر یہ کیسی دوری ہے
رابطہ نہ رکھو پر
واسطہ ضروری ہے
💜
ایک مُدت سے پکارا نہیں تم نے مجھ کو
ایسا لگتا ہے میرا نام نہیں ہے کوئی
بس اسی بات پہ اکتایا ہوا پھرتا ہوں
تم ہو مصروف مجھے کام نہیں ہے کوئی
🖤
اُس نے رکھی ہی نہیں مُجھ سے بنا کر ورنہ
اُس سے وہ عشق کرتی زمانہ دیکھتا
بہت نزدیک رہ کر بھی انائیں ایک جیسی ہیں
تکلف وہ نہیں کرتے ، مخاطب ہم نہیں کرتے
بیٹھے بٹھائے یوں کبھی آیا تیرا خیال
ہم لاکھ غمزدہ تھے مگر مسکرا دیے
💜
تم اگر مان بھی لیتے خطائیں اپنی
میں نے پھر بھی تیرا کیا بگاڑ لینا تھا
🖤
مُجھ کو خیال ہے کہ تو میرا خیال ہے
اے مرکزِ خیال تیرا کیا خیال ہے
آتا ہے تو خیال میں کِتنے خیال سے
مُجھ کو تیرے خیال کا کتنا خیال ہے
💜
یہاں کسی کو بھی حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہمیں تو نہ ملا
🖤
میں نے اُس سے جُدا ہو کر دیکھا ہے
محبت بڑھنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا
💜❤️🖤
بہت عجیب ہیں یہ بندشیں محبت کی
نہ اُس نے قید میں رکھا نہ ہم فرار ہوئے
🖤