میں نے اعصاب کو پتھر کا بنا رکھا ہے
اک دل ہے کہ جو بنتا نہیں پتھر جیسا
اہل ِ دل، دل کی نزاکت سے ہیں واقف ورنہ
کام لفظوں سے بھی لے سکتے خنجر جیسا
ہوتے رہیں اِس دھوپ میں تحلیل کہاں تک
اے وقت تیرے حکم کی تعمیل کہاں تک
ہر آن نئے حرف ، نئی سوچ ، نئی بات
آخر کوئی خود کو کرے تبدیل کہاں تک