جستجو کھوئے ہُوؤں کی عُمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سَمتوں کی خبر
شہرِ نا معلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
ہم نے خود سے بھی چھپایا اور سارے شہر کو
تیرے جانے کی خبر دیوار و دَر کرتے رہے
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا ' اُس شام بھی
انتظار اُس کا مگر کچھ سوچ کر ' کرتے رہے
آج آیا ہے ہمیں بھی اُن اُڑانوں کا خیال
جن کو تیرے زعم میں ' بے بال و پر کرتے رہے
پروین شاکر
تانگوں کا دور تھا ایک تانگے والے نے سڑک کے درمیان چلنے والی بڑھیا سے چیخ کر کہا:
’’بچ مائی بچ‘‘۔
لیکن بڑھیا راستے سے نہ ہٹی اور تانگے کے نیچے آ کر زخمی ہو گئی۔
پولیس والے نے تانگے والے کا چالان کر دیا اور پوچھا کہ تم نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے؟ تمہیں شرم نہ آئی کہ ایک بوڑھی عورت پر تانگہ چڑھا دیا
تانگے والا خاموش رہا
اسے خاموش دیکھ کر بڑھیا بول پڑی:
بول اب بولتا کیوں نہیں ہے اُس وقت تو بڑا چیخ چیخ کر
کہہ رہا تھا
" بچ مائی بچ"
ٹبہ ، ٹویا ۔ اک برابر
گڈیا ، بویا ۔ اک برابر
راتیں اکھ تے بدل برسے
رویا ، چویا ۔ اک برابر
قسمےسُن کے نیندر اڈ گئی
سُتا ، مویا ۔ اک برابر
ماڑے گھر نوں بوھا کادھا؟
کھلا ، ڈھویا ۔۔ اک برابر
سورج ٹُردا نال برابر
دن کیوں لگن سال برابر
وِتھ تے سجنا وِتھ ہوندی اے
بھاونویں ہووے وال برابر
اکھ دا چانن مر جاوے تے
نیلا، پیلا، لال برابر
جُلی منجی بھین نوں دے کے
ونڈ لئے ویراں مال برابر
مرشد جے نہ راضی ہووے
مجرا ، ناچ، دھمال برابر
اُتوں اُتوں پردے پاون
وچوں سب دا حال برابر..
تمام لوگ اکیلے تھے ، راہبر ہی نہ تھا
بچھڑنے والوں میں اِک میرا ہمسفر ہی نہ تھا
برہنہ شاخوں کا جنگل گڑا تھا آنکھوں میں
وُہ رات تھی کہ کہِیں چاند کا گُزر ہی نہ تھا
تمہارے شہر کی ہر چھاؤں مہرباں تھی ، مگر
جہاں پہ دُھوپ کڑی تھی وہاں شجر ہی نہ تھا
سمیٹ لیتی شکستہ گُلاب کی خُوشبُو
ہَوا کے ہاتھ میں ایسا کوئی ہُنر ہی نہ تھا
مَیں اِتنے سانپوں کو رَستے میں دیکھ آئی تھی
کہ تیرے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا
کہاں سے آتی کِرن زندگی کے زنداں میں
وُہ گھر مِلا تھا مُجھے جس میں کوئی دَر ہی نہ تھا
بدن میں پھیل گیا شاخ بیل کی مانند
وُہ زخم سوکھتا کیا ، جس کا چارہ گر ہی نہ تھا
ہَوا کے لائے ہُوئے بیج پھر ہَوا کو گئے
کِھلے تھے پُھول کُچھ ایسے کہ جن میں زر ہی نہ تھا
خود سے روٹھوں تو کئی روز نہ خود سے بولوں
پھر کسی درد کی دیوار سے لگ کر رو لوں
تو سمندر ہے تو پھر اپنی سخاوت بھی دکھا
کیا ضروری ہے کہ میں پیاس کا دامن کھولوں
میں کہ اک صبر کا صحرا نظر آتا ہوں تجھے
تو جو چاہے تو تیرے واسطے دریا رو لوں
اور معیار رفاقت کے ہیں ایسا بھی نہیں
جو محبت سے ملے ساتھ اسی کے ہو لوں
خود کو عمروں سے مقفل کئے بیٹھا ہوں فراز
وہ کبھی آئے تو خلوت کدہءِ جاں کھولوں
✍️_____احمد فراز
ویکھ فریدا مٹی کھُلی
مٹی اُتے مٹی ڈُلی
مٹی ہسے مٹی روؤے
انت مٹی دا مٹی ہوؤے
نہ کر بندیا میری میری
نہ تیری نہ میری
چار دناں دا میلہ دنیا
فیر مٹی دی ٹھیری
نہ کر ایتھے ہیرا پھیری
مٹی نال نہ دھوکا کر تُو
تُو وی مٹی او وی مٹی
ذات پات دی گل نہ کر تُو
ذات وی مٹی تُو وی مٹی
ذات صِرف خدا دی اُچّی
باقی سب کچھ مٹی مٹی
خواجہ غلام فرید
__________________________🖤
آپ کو عشق کرنا ہے_____ تو جناب کیجیے
بس اک میری ____ ذات سے اجتناب کیجیے
بڑی مشکل سے ___ انہیں سنوارا ہے
ارے جائيے عادتیں مت خراب کیجیے
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ایک فرشتہ دائیں جانِب____اور ایک بائیں
سوچو____اِنسان کِتنی بےاعتبار مخلوق ہے
آنکھ نے رات جب ایک چاند مکمل دیکھا
پھر سمندر کو بھی ہوتے ہوئے پاگل دیکھا.!!
رات پھر دیر تلک کی تیری باتیں خود سے
رات بھر سامنے چہرہ تیرا پل پل دیکھا.!!
آج یادوں کی گھٹا ٹوٹ کے برسی دل پر
آج ہم نے بھی برستا ہوا بادل دیکھا.!!
حافظہ چھین لیا ہم سے غمِ دنیا نے
آج ہم بھول گئے اس کو جسے کل دیکھا.!!
ایک وہ تھی کہ بہت ہنستی تھی ر
آج اس کی بھی آنکھوں سے بہتا کاجل دیکھا.!!
دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں
دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملے ہو تم بھی ناں
ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسے ہو تم بھی ناں
عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتے ہو تم بھی ناں
خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں
بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں
میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتے ہو
مجھ کو اتنا جان چکے ہو تم بھی ناں
مانگ رہے ہو رخصت اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھے ہو تم بھی ناں
ایک وہ شخص جو مجھے طعنہ جان دیتا ہے🖤
مرنے لگتا ہوں تو مرنے بھی کہاں دیتا ہے😰
تیری شرطوں پر ہی کرنا ہے اگر تُجھ کو قبول🤌🏻
یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے 🖤🥹
گاڑی چلاتے ہوئے اگر کوئی بچہ سامنے آ جائے
تو پہلی کوشش کریں
کہ گاڑی روک لیں
اگر یہ ممکن نہ ہو
تو پھر بچے کے پیچھے سے گاڑی گزاریں
کیونکہ بچہ عموما آگے کی طرف دوڑتا ہے
اور اسی طرح کوئی بزرگ سامنے آجاۓ
تو اس کے آگے سے گاڑی گزاریں
کیونکہ بزرگ عموما پیچھے کی طرف ہٹتے ہیں
لیکن اگر کوئی خاتون سامنے آ جاۓ
تو آپ ہر حال میں گاڑی روکنے کی کوشش کریں
کیونکہ الله کی یہ نرالی مخلوق پہلے آگے بھاگے گی
پھر پیچھے بھاگے گی
اور آخر میں دونوں ہاتھ کانوں پہ رکھ کے
سڑک کے عین بیچ میں کھڑی ہو جائے گی🤣🤣🤣
صحرا صحرا کہنے سے گلزار بدلتے نئیں
دیکھ کے تیور دشمن کے ہم یار بدلتے نئیں
بات تو یہ ہے بندے کے کردار سے خوشبو آئے
گوچی باس لگانے سے کردار بدلتے نئیں
گھر کی زینت گھر والوں کی عزت پیار سے ہے
لینڈ کروزر پورشے سے گھر بار بدلتے نئیں
جن کی فطرت میں ہو ڈسنا ڈس کے رہتے ہیں
بی اے ایم اے کرنے سے افکار بدلتے نئیں
بات تو تب ہے کعبۂ دل کا کرنے لگے طواف
رسمی عمرے کر کے دنیا دار بدلتے نئیں
ایسا ہے کہ ایسا ویسا اور نہیں ہے کچھ بھی
ایسا ہے کہ کچھ بھی ہو ہم پیار بدلتے نئیں
دانش مندی ہے وہ کرنا جو بھی کہے طبیب
نسخے جیب میں رکھنے سے بیمار بدلتے نئیں
جو ہیں اپنے وہ ہر حال میں اپنے رہتے ہیں
ہم موسم کو دیکھ کے رشتے دار بدلتے نئیں
اکثر تنہا رہ جاتے ہیں تیز مزاج وہ لوگ
دیکھ کے چال جو اپنوں کی رفتار بدلتے نئیں
رنجشیں ہجر کا معیار گھٹا دیتی ہیں
روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں!!!
راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو
وہ بھی عرشوں سے اتارے تو نہیں ہوتے ناں!!!
ہجر تو اور محبت کو بڑھا دیتا ہے
اب محبت میں خسارے تو نہیں ہوتے ناں!!!
اک شخص ہی ہوتا ہے متاعِ جاں بھی
دل میں اب لوگ بھی سارے تو نہیں ہوتے ناں!!!
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اُسے چاند تکنے کی عادت ہے
تو ہم بھی اُس کے لیے رات بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
ایک اجنبی بہت خاص لگنے لگا مجھے🫠
زندگی کی آس لگنے لگا مجھے❤🩹
اور جب اظہار محبت کر بیٹھے اس سے🥲
رفته رفتہ وہ بھی نظر انداز کرنے لگا مجھے💔☹️ gd night
زندگی بھی ایک کھیل ہی ہے۔
بچپن میں: چڑی اڑی، کوا اڑا۔
جوانی میں: نیند اڑی، چین اڑا۔
بڑھاپے میں: بال اڑے، دانت اڑے۔ 😁
پھر یوں ہوا کے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا
ثابت ہوا کے لازم و ملزوم کچھ نہیں
پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے
وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست
پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا
خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا
ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﺬّﺕ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻦ ﮔﺌﯽ
ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﻣﻮﻡ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﮔﯿﺎ
پھر یوں ہوا کہ لب سے ہنسی چھین لی گئی
پھر یوں ہوا کہ ہنسنے کی عادت نہیں رہی
پهر یوں ہوا کہ، زخم نے جاگیر بنا لی
پهر یوں ہوا کہ، درد مجھے راس آ گیا
پھر یوں ہوا کہ، وقت کے تیور بدل گئے
پھر یوں ہوا کہ راستے یکسر بدل گئے
پھر یوں ہوا کہ حشر کے سامان ہوگئے
پھر یوں ہوا کہ شہر بیابان ہوگئے
پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم
اتنا چلے کہ راستے حیران ہوگئے
#پروین_شاکر
ایک تو یہ😠😠😠 See more
والا پرینک اتنا زیادہ ہو گیا کہ چاہے کوئی بھی پوسٹ ہو نیچے see more لکھا ہو تو ڈر لگنے لگتا ہے😡😡😡
کے کہیں بیوقوف نا بن جائیں
حد ہوتی ہے لوگوں کا اتنا ٹائم ضائع ہوتا ہے
برائے مہربانی ایسی پوسٹس نا کیا کریں جن سے دوسروں کا ٹائم ضائع ہو
بعض اوقات تو میرا د...See more
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain