عجیب کیفیت اوجھل ہوتی ہیں اک شخص کی باتیں "محبت مجھ کو عجب میں ڈال دیتے ہیں اگر اک بات سن لو تو مجھ کو دن بھر پریشان کر دیتے ہیں عجیب کیفیت تار ہوتی ہے ترستا ہے دل اس سے بات کرنے کو پھر خود کو انکار کر کہ خاموش ہو جاتے ہیں
یہ راتوں کی تکیے آنسوئوں سے بھری یہ شامِ بزم میں ہچکیوں کی آواز یہ خاموش سہرائوں میں لہرے شور کوئی کسی کے لیے قیو اتنا روتا ہے کوئی کسی کے لیے قیو اتنا بیچین ہوتا ہے کچھ تو عرض کر ، کچھ تو تاسیر کر کہیں میں لرض نہ جائوں ""محبت کہیں میں مر نہ جاؤں
کچھ عجب ہے کہ میں خود کو سنبھال نہیں پاتا"محبت"۔ تیرے دیے ہوئے الفاظ میں بھول نہیں پاتا اک مکتوب سہ کوئی اجتمعہ ہے دل میں تیرے رَوَیے میں بھول نہیں پاتا
اک بہ مطلب کہانی اک مسافر سے کچھ بات چھیڑا تھا اک شخص نے اس رات میں آغاز کیا تھا اک شخص نے اک رنگین شھر میں کچھ سبز جیسا وہ جو اُس کے باتوں میں اک کشش تھی بہ مسل اک ساز پر کچھ وقت بحث ہوئی کچھ عرصہ بعد کچھ نام آشکار ہوئے کچھ لفظ ملنے لگے کچھ کہانی جڑنے لگا کچھ وقت موسم سرہان تھا وہ جو کشمکش میں مگن تھے اچانک آواز آیا دوری رکھوں سب سے بھر یکدم شور ڈلگیا اک دوستوں کے محفل کو نظر لگے کچھ دوستوں کے دوستی کے جنازے اٹھے کچھ خاموشی سے ہمیشہ ڈھل گئی مگر وہ مسافر کے سفر میں ٹہلتا رہا کچھ عرصہ بعد اک خخل میں الجھ گئے وہ کہتا رہا اک تابودانے اس نے بنا کہے نیچے گرا دیا اس کے پاس تھے ہر ہرف کے تشکیک مگر مسافر تھا کچھ نہ سن سکا نہ ٹھہر سکا چلا گیا--بابر
ای چاند کہا ہو تم تم قیو نظر نہیں آتے ہو میں تیرے تلاش میں ہوں یہ جو راہ ہے کیا تم اس میں ہو مجھ کو تیری لت لگے ہے کچھ تو بتائو"محبت یو خاموش قیو ہو مجھ کو چین نہیں تیرا گم رہنا قیو ہے بتاؤں نہ کہا ہو تم
کچھ تو عرض کر یہ راتوں کی تکیے آنسوئوں سے بھری یہ شامِ بزم میں ہچکیوں کی آواز یہ خاموش سہرائوں میں لہرے شور کوئی کسی کے لیے قیو اتنا روتا ہے کوئی کسی کے لیے قیو اتنا بیچین ہوتا ہے کچھ تو عرض کر ، کچھ تو تاسیر کر "کہیں میں لرض نہ جائوں "محبت"بابر کہیں میں مر نہ جاؤں
ای وقت کچھ گلا شکوا کرنا ہے خود سے مجھے معلوم ہے کہ تم واپس نہیں جاؤں گے نفرت ہوگیا ہے خود سے اک مدت سے میں جس جفر میں ہو مینے ہی بویا ہے بہ علم کی سرتر میں , غفلت کے مرتب میں کیا کیا کروں میں خود کو فتارت نہیں کر پا رہا میرے ہاتھوں میں ہے یہ تظدر پھر بھی بنا نہیں پاتا "کیا بتاؤں میں کسی کو "بابر میں غفلت کا مارا ہو
وہ جو مسروف ہے کہیں اور شناسہ اک ہم ہیں جو بہ وجہہ اس کی اور دیکھتے ہیں کچھ عکتب نہیں اس سے ملنے کی اک ہم ہیں جو اُس کے آس پر بیٹھے ہیں کوئی تو اسے کہدی اک مسافر آ کھڑا اک تیرے دیدار کی متلوب میں ہے بابر"