عورت!
رسمِ قربانی کا آغاز ہوا ہے مجھ سے
کتنی خونخوار حکایات کی سولی پہ چڑھی
جھوٹے معبودوں کی مطلوب رہی خوشنودی
میں اپالو،کبھی عشتار کے معبد میں لُٹی
ميں سلگتے ہوئے صحراؤں میں ،،، دفنائی گئی
اور کبھی نيل کی طغيانی کا،، نذرانہ بنی
مجھ کو بانٹا بھی گيا،،، مالِ غنیمت کی طرح
مرد مفتوح ہوئے تو جنگ کا جرمانہ بنی
ديکھ تاريخ کی بوسيده کتابوں میں کہیں
کیسے بانٹی گئی،، جيتے ہوئے سرداروں میں
کتنے شاہوں نے بنايا،حرم کی زينت
کتنے شہزادوں نے نچوايا ہے ، درباروں میں
کرہ ارض کے تاریک سماجوں کی قسم
کتنے تمغوں سے نوازا مجھے،، شب زادوں نے
جھوٹی عظمت کے فلک بوس مناروں کی قسم
کتنى ديواروں میں چنوايا ہے،،، جلادوں نے
خطِ تقسيم، جو انسان نے زميں پہ کھینچی
ميری تذليل کا آغاز اسی دن سے ہوا
کتنے چہروں سے،
Koe ase girl h jo bagyr b. F ko hu such batana
mere liy koe ispeshal h jiska aj bhrth dey h happy bhrthdy