محبت راکھ ہونے سے ذرا پہلے چلے آنا کہ میرے خاک ہونے سے ذرا پہلے چلے آنا بہت کچھ کھو دیا میں نے ، فقط تیری چاہت میں کہ میری سانس رکنے سے ذرا پہلے چلے آنا سجایا تھا جو اک سپنا تمہارے ساتھ جینے کا میرے سپنے بکھرنے سے ذرا پہلے چلے آنا میری آنکھیں ترستی ہیں ، تمہاری دید کی خاطر کہ آنکھیں موندھ جانے سے ذرا پہلے چلے آنا ابھی تو عشق باقی ھے ملن کی آس ھے دل میں بھرم کے ٹوٹ جانے سے ذرا پہلے چلے آنا گلے چاھے ہزاروں ہیں محبت صرف تم سے ھے محبت روٹھ جانے سے ذرا پہلے چلے آنا
زندگی ایک گفٹ ہے قبول کیجۓ زندگی ایک احساس ہےمحسوس کیجۓ زندگی ایک درد ہے بانٹ لیجۓ زندگی ایک پیاس ہے پیار کیجۓ زندگی ایک جدائ ہے صبر کیجۓ زندگی ایک انسوہے پی لیجۓ زندگی اخر زندگی ہے جی لیجۓ
کہاں ہے اب مجھے ترسانے والا غم و رنج و ستم برسانے والا شکایت ہے، نہ ہی شکوہ کسی سے مرا اپنا ہی تھا اکسانے والا وہ اب چنگاریوں سے ڈر رہا ہے جگر کو آگ میں جھلسانے والا بھری محفل میں گانا گا رہا تھا کبھی تنہائی میں شرمانے والا دل و دنیا کی جانب لوٹ کر پھر نہیں آتا ہے واپس جانے والا زمانے بھر میں رسوا ہو گیا وہ زمانے بھر کا دل بہلانے والا صحیفوں پر عمل پیرا نہ ہو گا نبیؐ کی آل کو جھٹلانے والا بھروسہ کچھ نہیں اس رہنما کا کبھی بھی نکلے گا بھٹکانے والا اسے چاہا دل و جاں سے زیادہ کوئی تو ہو اسے سمجھانے والا غمِ دنیا الگ ہجراں الگ ہے یہی اک دل سبھی غم کھانے والاً
جو اُتر کے زینہِ شام سے، تری چشمِ تر میں سما گئے وُہی جَلتے بجھتے چراغ سے ،مرے بام و دَر کو سجا گئے یہ جو عاشقی کا ہے سلسلہ، ہے یہ اصل میں کوئی معجزہ کہ جو لفظ میرے گُماں میں تھے، وہ تری زبان پہ آ گئے وہ جو گیت تم نے سُنا نہیں، مِری عُمر بھر کا ریاض تھا مرے درد کی تھی وہ داستاں، جِسے تم ہنسی میں اُڑا گئے وہ چراغِ جاں، کبھی جس کی لَو، نہ کسی ہَوا سے نِگوں ہوئی تری بے وفائی کے وسو سے، اُسے چُپکے چُپکے بُجھا گئے وہ تھا چاند شامِ وصال کا، کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا مری روح سے مِری آنکھ تک، کِسی روشنی میں نہا گئے وہ عجیب پُھول سے لفظ تھے، ترے ہونٹ جن سے مہک اُٹھے مِرے دشتِ خواب میں دُور تک، کوئی باغ جیسے لگا گئے مِری عُمر سے نہ سمٹ سکے، مِرے دل میں اتنے سوال تھے ترے پاس جتنے جواب تھے، تری اِک نگاہ میں آ گئے
روز دن کے بعد آتا ہے اندیشہ رات کا سمجھ میں نہیں آتا قصہ کائنات کا دنیا میں ہے برپا ہنگامہ محشر آسا چاروں طرف شور ہے حادثات کا نا جانے کس کو ملے گی باغِ بہشت اعمال پر ہے مبنی حساب حیات کا کل سجدہ کیا فرشتوں نے آج محتسب عالم اسرار میں کیا مطلب ہے اس بات کا نقص نکالتے ہیں اشعار میں میرے میرے بعد کھلے گا راز میری ذات کا دل کے ترازو کے ساتھ تولنا بیان میرا خواب میں بھی اثر رہے گا بینات کا
جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل وہی لوگ میرے ہیں ہم سفر مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے مری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے یہ خیال سارے ہیں عارضی یہ گلاب سارے ہیں کاغذی گل آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے جنہیں کر سکا نہ قبول میں وہ شریک راہ سفر ہوئے جو مری طلب مری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے مری دھڑکنوں کے قریب تھے مری چاہ تھے مرا خواب تھے وہ جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
تیری ہجرتوں کا ملال تھا _مگر اب نہیں۔! مجھے بس تیرا خیال تھا _مگر اب نہیں۔! تیری بے مثال محبتوں پہ _نثار میں۔! تو زمانے بھر میں بے مثال تھا _ مگر اب نہیں۔!
ago مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے نہیں بچتا نہیں بچتا نہیں بچتا عاشق پوچھتے کیا ہو شب ہجر میں کیا ہوتا ہے بے اثر نالے نہیں آپ کا ڈر ہے مجھ کو ابھی کہہ دیجیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے کیوں نہ تشبیہ اسے زلف سے دیں عاشق زار واقعی طول شب ہجر بلا ہوتا ہے یوں تکبر نہ کرو ہم بھی ہیں بندے اس کے سجدے بت کرتے ہیں حامی جو خدا ہوتا ہے برقؔ افتادہ وہ ہوں سلطنت عالم میں تاج سر عجز سے نقش کف پا ہوتا ہے
خیال و خواب سے باہر اٹھا کے رکھ دو مجھے یہی روا ہے کہ اب تم ! بھُلا کے رکھ دو مجھے ہوس کے مارے ہوئے لب مجھے بلا رہے ہیں وہ آنکھ دیکھ رہی ہے ! چھپا کے رکھ دو مجھے تمہارے ہاتھ ہے ! مٹی مِری ! نصیب مِرا تمہاری مرضی ہے ! جو بھی بنا کے رکھ دو مجھے نجف کا دیپ ہوں میں ! بجھ نہیں سکوں گا کبھی تم آندھیوں میں بھی چاہے جلا کے رکھ دو مجھے میں اب گما ہوا ! خود کو کہاں کہاں ڈھونڈوں کہا تھا ! رکھنا جہاں ہے ! بتا کے رکھ دو مجھے میں چھُو کے چھوڑا ہوا، ٹوٹ پھوٹ جاتا ہوں تمہیں یہ کس نے کہا تھا اٹھا کے رکھ دو مجھے میں جل کے راکھ بھی ہو جاؤں ! مسئلہ نہیں ! پر میں کام آتا رہوں گا ! بُجھا کے رکھ دو مجھے تمہاری میز پہ رکھا ہوا میں خط ہی سہی اداس ہو کے پڑھو، مسکرا کے رکھ دو
خیال و خواب سے باہر اٹھا کے رکھ دو مجھے یہی روا ہے کہ اب تم ! بھُلا کے رکھ دو مجھے ہوس کے مارے ہوئے لب مجھے بلا رہے ہیں وہ آنکھ دیکھ رہی ہے ! چھپا کے رکھ دو مجھے تمہارے ہاتھ ہے ! مٹی مِری ! نصیب مِرا تمہاری مرضی ہے ! جو بھی بنا کے رکھ دو مجھے نجف کا دیپ ہوں میں ! بجھ نہیں سکوں گا کبھی تم آندھیوں میں بھی چاہے جلا کے رکھ دو مجھے میں اب گما ہوا ! خود کو کہاں کہاں ڈھونڈوں کہا تھا ! رکھنا جہاں ہے ! بتا کے رکھ دو مجھے میں چھُو کے چھوڑا ہوا، ٹوٹ پھوٹ جاتا ہوں تمہیں یہ کس نے کہا تھا اٹھا کے رکھ دو مجھے میں جل کے راکھ بھی ہو جاؤں ! مسئلہ نہیں ! پر میں کام آتا رہوں گا ! بُجھا کے رکھ دو مجھے تمہاری میز پہ رکھا ہوا میں خط ہی سہی اداس ہو کے پڑھو، مسکرا کے رکھ دو
تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی ‛ محبت کی راہوں میں آ کر تو دیکھو . تڑپنے پہ میرے نہ پھر تم ہنسو گے‛ کبھی دل کسی سے لگا کر تو دیکھو . وفاؤں کی ہم سے توقع نہیں ہے ‛ مگر ایک بار آزما کے تو دیکھو . زمانے کو اپنا بنا کر تو دیکھا ‛ ہمیں بھی تم اپنا بنا کر تو دیکھو . خدا کے لئے چھوڑ دو اب یہ پردہ ‛ کہ ہیں آج ہم تم نہیں غیر کوئی . شب ِوصل بھی ہے حجاب اس قدر کیوں ‛ ذرا رُخ سے آنچل اٹھا کرتو دیکھو . جفائیں بہت کیں بہت ظلم ڈھائے ‛ کبھی اک نگاہِ کرم اِس طرف بھی . ہمیشہ ہوئے دیکھ کر مجھ کو برہم ‛ مری جاں کبھی مسکرا کر تو دیکھو .