Damadam.pk
Mehar_1's posts | Damadam

Mehar_1's posts:

Mehar_1
 

پھر اب کیا ہوا ہے اسے بلقیس؟ اس نے دکھ سے پوچھا تھا-بلقیس آہستہ آہستہ پارک کی پتھریلی روش پر وہیل چئیر چلا رہی تھی-دور گھاس پر بچے کھیل رہے تھے-ایک طرف ایک بچہ ماں کی انگلی پکڑے رو رہا تھا-اسے ہر بچے میں اپنا تیمور نظر آرہا تھا-
تیمور بابا ایسا نہیں تھا بی بی!وہ تو بہت پیار کرنے والا بچہ تھا،مگر پھر اب دو ایک سالوں میں بہت چڑ چڑا ہوگیا ہے-صاحب بھی تو اسے توجہ نہیں دیتے، پہلے تو چھوٹا تھا پر اب بہت سمجھدار ہوگیا ہے، ساری باتیں سمجھتا ہے،اسی لیے سب سے ناراض رہتا ہے-
اور تمہارے صاحب؟وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
پتا نہیں بی بی!وہ شروع میں آپ کا بہت خیال رکھتے تھے، پھر آپ کے حادثے کے چھٹے برس ان کی پوسٹنگ کراچی ہوگئی تھی-وہ سوا سال ادھر رہے-وہاں سے واپس آئے تو بہت بدل گئے تھے جی-

Mehar_1
 

وہاں بوتیکس، شاپس اور ریسٹورنٹ کی چہل پہل ہوتی تھی اور ایسی جگہوں پہ جاتے ہوئے اس کا دل گھبراتا تھا، سو اس نے بلقیس کو آگے جانے سے منع کردیا-
بس یہیں پارک تک ٹھیک ہے، اسی میں چلتے ہیں-
بلقیس سر ہلا کر وہیل چئیر اندر لے جانے لگی -
" جب آپ کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا نا محمل بی بی تو صاحب بہت روئے تھے-میں نے خود انہیں روتے دیکھا تھا-بہت دھچکا لگا تھا ان کو-
کون ؟ ہمایوں ؟ وہ چونکی تھی-
ہاں جی! انہوں نے چھٹی لے لی تھی، کئی ماہ تو وہ اسپتال میں آپ کے ساتھ ہی رہے تھے-تیمور بابا کو تو بھلا ہی دیا تھا، میں نے بڑا کیا ہے جی تیمور با با کو-بڑا پیارا بچہ تھا ہمارا بابا،جب چار سال کا تھا تو آپ کے لیے پھول لے کے جاتا تھا، اور وہاں اسپتال میں آپ کے سرہانے بیٹھ کر گھنٹوں بولا کرتا تھا-

Mehar_1
 

اب اسے رونا نہیں تھا-اب اسے صبر کرنا تھا، طائف کے پتھر دراصل اب لگنے شروع ہوئے تھے- صبر اور شکر ۔۔۔۔۔ اس نے ان دو سہاروں کو بالآخر تھام ہی لیا تھا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شام بہت سہانی سی اتری تھی- کالونی کی صاف سڑک کے اطراف سبز درختوں کے تازہ پتوں کی مہک ، ٹھنڈی ہوا سے بکھر گئی تھی-
بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی سڑک کے کنارے آگے بڑھ رہی تھی- وہ ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی ادھر ادھر کی باتیں بھی کر رہی تھی-مگر محمل کا دھیان کہیں اور تھا-وہ گم صم سی دور افق کو دیکھ رہی تھی-جہاں پرندوں کے غول اڑ رہے تھے-اس روز کے طوفان کے بعد موسم بہت ٹھنڈا ہوگیا تھا اور اس ٹھندی ہوا میں باہر نکلنا بہت اچھا لگ رہا تھا-
بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی دور پارک تک لے آئی تھی-اس سے آگے ان کے سیکٹر کا مرکز تھا،

Mehar_1
 

ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ان کی بات غمگین کرتی ہے،پس بے شک وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے،بلکہ وہ ظالم تو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے ہیں-
اس نے پھر سے پڑھا اور پھر سے دم بخود سی ہو کر ایک ایک حرف کو انگلی سے چھونے لگی-کیا وہ واقعی ادھر لکھا تھا؟
اوہ اللہ تعا لی-اس ک آنسو پھر سے گرنے لگے تھے-آپ کو۔۔۔۔ آپ کو ہمیشہ سے پتا چل جا تا ہے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کبھی بھی آپ سے کچھ نہیں چھپا سکتی-وہ بری طرح رو دی تھی-اب کی بار یہ دکھ کے آنسو نہ تھے،بلکہ خوشی کے تھے،سکون کے تھے رضا کے تھے- اگر آپ مجھ سے یونہی بات کرتے رہیں تو آپ مجھے جس حال میں بھی رکھیں میں راضی ! میں راضی! میں راضی!" اس نے چہرہ اٹھایا اور ہتھیلی کی پشت سے آنسو صاف کیے-

Mehar_1
 

کیا تمہیں چھوڑنے میں میرا اپنا اختیار تھا تیمور؟ تم اتنی سی بات پہ مجھ سے ناراض نہیں ہو سکتے-شاید تمہارے باپ نے تمہیں مجھ سے بد ظن کیا ہے-وہ دکھی دل سے سوچتی واپس کمرے تک ائی تھی-اس کے ripple بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ سیاہ کور والا قرآن رکھا تھا-اس نے آہستہ آہستہ سے اٹھایا اور دونوں ہاتھوں میں تھامے اپنے سامنے کیا-
سیاہ کور پہ مدھم سا مٹا مٹا سا "م " لکھا تھا-جانے اس نے کیوں اور کب ادھر لکھا تھا؟وہ کوشش کے باوجود نا یاد کر پائی،پھر سر جھٹک کر اسے وہاں سے کھولا جہاں سے فجر کے بعد تلاوت چھوڑی تھی-اس نے وہ آیت دیکھی جہاں ایک بار مارک لگا تھا،پھر تعوذ تسمیہ پڑھا اور اگلی آیت سے پڑھنا شروع کیا-
" ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ان کی بات غمگین کرتی ہے-
اس نے بے یقینی سے اس آیت کو دیکھا-

Mehar_1
 

"تیمور!" اس کی زخمی مامتا بلبلائی- ادھر میرے پاس آؤ بیٹا! اس نے دونوں ہاتھ پھیلائے-شاید وہ اس کے گلے سے لگ جائے،شاید کہ ہمایون کے روئیے کی تپش کچھ کم پڑ جائے-
آئی ہیٹ یو- وہ تڑخ کر بولا اور اسے دیکھتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا -ہمایوں کے الفاظ کیا کم تھے جو اوپر سے اس سات سالہ لڑکے کا انداز، اس کی روح تک چھلنی ہوگئی-
میں نے کیا کیا ہے تیمور؟تم ایسے کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ؟کیوں ناراض ہو مجھ سے؟
یو لیفٹ می وین آئی نیڈ یو-(آپ نے مجھے اس وقت چھوڑا جب مجھے آپ کی ضرورت تھی-)
وہ زور سے چیخا تھا-آئی ہیٹ یو فار ایوری تھنگ -
اور مڑ کر بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا- لمحے بھر بعد اس نے تیمور کے کمرے کا دروازہ زور سے بند ہوتے سنا-

Mehar_1
 

پھر کتنی ہی دیر بعد رسیور اس کے ہاتھ سے پھسلا اور نیچے لڑھک گیا-اس کے زمین سے ٹکرانے کی آواز پہ بے اختیار اس نے پلکیں جھپکیں اور آن کی آن میں اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں-
اس کی ہچکی بندھ گئی تھی، اور پورا وجود لرز رہا تھا، وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی-
ہمایوں نے اسے وہ سب کہا تھا؟اتنے غصے اور بے زاری سے، جیسے وہ اس سے اکتا چکا تھا- ہاں وہ مرد تھا-وجیہہ ، شان دار سا مرد، کب تک ایک کومے میں بے ہوش پڑی نیم مردہ بیوی کی پٹی سے لگا رہتا؟اس کو اب محمل کی ضرورت نہ تھی-شاید وہ اب اس سے شادی کرنے پہ پچھتا رہا تھا-اپنی وقتی جزباتیت پہ پچھتا رہا تھا-
دفعتا آہٹ پہ اس نے آنکھیں کھولیں-
تیمور سامنے صوفے کے اس طرف کھڑا اسے دیکھ رہا تھا-چبھتی خاموش نگاہیں جن میں عجیب سا تنفر تھا-

Mehar_1
 

مجھے نہیں پتہ پلیز اجائیں جیسے بھی ہو-باہر طوفان کا شور بڑھ رہا تھا، ساتھ ہی اس کے آنسوؤں میں شدت آگئی تھی-
میں نہیں آسکتا، فرشتے یا کسی ملازمہ کو بلالو- وہ جھلایا تھا-
فرشتے گھر پہ نہیں ہے، آپ آجائیں ہمایوں پلیز-
کیا بکواس ہے؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم معذوری کا ڈرامہ رچا کہ میری ہمدردی حاصل کر سکتی ہو تو اس خیال کو دل سے نکال دو اور مجھے میری زندگی جینے دو ، خدا کے لیے اب پیچھا چھوڑ دو میرا -اور ٹھک سے فون بند ہوگیا-
وہ سکتے کے عالم میں ریسیور ہاتھ میں لیے سن سی بیٹھی رہ گئی-کتنے لمحے گزرے ، کتنے بادل گرجے کتنی بجلی چمکی ، کتنے قطرے برسے ، وہ ہر شے سے غافل ، بنا پلک جھپکے شل سی بیٹھئ تھی-لب ادھ کھلے آنکھیں پھتی پھٹی اور ہاتھ میں پکڑا رسیور کان سے لگائے۔ وہ کوئی مجسمہ تھا جو ٹیلی فون اسٹینڈ کے ساتھ اس وہیل چیئر پہ بے حس و حرکت پڑا تھا-

Mehar_1
 

گھنٹی جا رہی تھی، مگر وہ اٹھا نہ رہی تھی- غالبا کلاس میں تھی-اس نے مایوسی سے فون رکھ دیا،اس کی نگاہ دوبارہ چٹ پر پڑی-
کچھ سوچ کر اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ رسیور دوبارہ اٹھایا- نمبر ڈائل کرتے ہوئے اس کی انگلیاں لرز رہی تھیں-
تیسری گھنٹی پر ہمایوں نے ہیلو کہا تھا-
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیوں -وہ بمشکل بول پائی تھی- کون؟
میں محمل-
دوسری جانب ایک لمحے کو سناٹا چھا گیا-
ہاں بولو- مصروف ، سرد مہر سی آواز ابھری-
آپ ۔۔۔۔ آپ کدھر ہیں؟
پرابلم کیا ہے؟قدرے بے زاری-
وہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ باہر اسٹورم(طوفان) آرہا ہے- مجھے ڈر لگ رہا ہے پلیز آپ گھر آجائیں-اس کا گلا رندھ گیا آنکھیں ڈبڈبا گئیں-
اوہو- میں میٹنگ میں بیٹھا ہوں-ابھی کہاں سے آجاؤں-

Mehar_1
 

دیکھتے ہی دیکھتے دن میں رات کا سماں بندھ گیا،بادل زور سے گرجنے لگے-موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ گرنے لگیں،بجل کڑکتی تو ایک لمحے کو خوف ناک سی روشنی بکھر جاتی-
اسے بارش سے پہلے کبھی نہیں ڈر لگا تھا-مگر آج لگ رہا تھا، ہمایوں نہیں تھا، فرشتے بھی نہیں تھی ، اسے لگا وہ اکیلی ہے، تنہا ہے-
بجل بار بار کڑک رہی تھی- ساتھ ہی اس کی دھڑکن بھی تیز ہورہی تھی-بے اختیار اسے پسینہ آنے لگا تھا،کیا کرے کسے بلائے؟
وہ تیزی سے دونوں ہاتھو ں سے وہیل چئیر چلاتی لاؤنج میں آئی-فون ایک طرف تپائی پہ دھرا تھا-اس کے ساتھ ہی ایک چٹ بھی تھی جس پر ہمایوں اور فرشتے کا نمبر لکھے تھے-وہ غالبا تیمور کے لیے لکھے گئے تھے-اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے رسیور اٹھایا اور رفرشتے کا نمبر ڈائل کیا، پھر رسیور کان کے ساتھ لگایا-

Mehar_1
 

اس گھر کے تینوں مکیں اجنبیوں کی طرح رہ رہے تھے، اور اب وہ چوتھی اجنبی ان کی اجنبیت بٹانے اگئی تھی-
فرشتے شام میں مدرسے جاتی تھی-وہ غالبا اب شام میں کلاسز لے رہی تھی-محمل نے ایک بار پوچھا تو وہ اداسی سے مسکرا دی تھی-
صبح کی کلاسز لینا اسپتال کی وجہ سے ممکن نہ تھا-مختصرا بتا کر وہ حجاب صحیح کرتی باہر نکل گئی تھی-
وہ محمل کا بہت خیال رکھتی تھی-اس کی دوا ، مساج ، مفلوج اعضاء کی ایکسر سائز، فریوتھراپسٹ کے ساتھ اس پہ محنت کرنا،پھر غذآ کا خیال ، وہ انتھک لگی رہتی، بلا کسی اجر کی تمنا کیے یا احسان جتائے-
اس شام بھی فرشتے مدرسے گئی ہوئی تھی-جب سیاہ بادل آسمان پر چھانے لگے-ہمایوں تو کبھی بھی شام میں گھر نہیں ہوتا تھا-تیمور جانے کہاں تھا-وہ اپنے کمرے سے باہر کا منطر دیکھ رہی تھی-

Mehar_1
 

اتا. وہ انتظار میں لاؤنج میں وہیل چئیر پہ لاؤنج میں بیٹھی ہوتی-وہ آتا سرسی سا حال پوچھتا اوپر سیڑھیاں چڑھ جاتا اور وہ اس کی پشت کو نم آنکھوں سے دیکھتی رہ جاتی -
تیمور دوپہر میں اسکول سے آتا تھا-وہ کھانا ڈائنگ ٹیبل پر اکیلے کھاتا تھا-اگر محمل کو ادھر بیٹھے دیکھتا تو فورا واپس چلا جاتا نتیجتا بلقیس اسے اس کے کمرے میں کھانا دے آتی - وہ جنک فوڈ کھاتا تھا- برگر پنیر کے ڈبوں سے فریزر اور فرنچ فرائیز کے لیے آلوؤں سے سبزی والی ٹوکری بھری رہتی -کھانے پینے کا وہ بہت شوقین تھا- اسکول سے لائے چپس کے پیکٹس اور چاکلیٹس عموما کھاتا نظر آتا -شام کو ٹی وی لاؤنج میں کارٹون لگائے بیٹھا رہتا - اگر محمل کو آتا دیکھتا تو اٹھ کر چلا جاتا- وہ جان ہی نہ پا رہی تھی کہ وہ اتنا ناراض کس بات پہ ہے؟ آخر اس نے کیا ہی کیا ہے؟

Mehar_1
 

فرشتے بہت محتاط طریقے سے اس گھر میں رہ رہی تھی،جیسے اس کے ذہن میں تھا اسے جلد ہی یہاں سے چلے جانا ہے- ملازمہ بلقیس نے اسے بتایا تھا کہ فرشتے اپنے پیسوں سے ماہانہ راشن کی چیزیں لے آتی ہے،خصوصا چکن اور گوشت وہ ہمیشہ خود ہی خریدتی تھی-جب ہمایوں کو پتا چلا اور اس نے فرشتے کو روکنا چاہا تو فرشتے نے صاف کہہ دیا کہ اگر اس نے اسے روکا تو وہ واپس اسکاٹ لینڈ چلی جائے گی-نتیجتا ہمایوں خاموش ہوگیا-صاف ظآہر تھا وہ ان پر بوجھ بننا نہیں چاہتی تھی اور شاید اس کے ذہن میں ہو کہ کہیں کوئی اسے مفت خورا نہ سمجھ لے-اپنی عزت نفس اور وقار لو اس نے ہمیشہ قائم رکھا تھا،محمل خود کو اس کا زیر بار سمجھنے لگی،
ہمایوں سے اس کی ملاقات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی-وہ کبھی دوپہر میں گھر آتا تو کبھی رات کو-کھانا وہ اپنے کمرے میں کھاتا-اور پھر وہی رہتا اکثر بہت رات گئے گھر واپس

Mehar_1
 

فرشتے نے گھر کو اچھی سے سنبھالا ہوا تھا-گو کہ ہر کام کے لیے جزوقتی ملازمائیں رکھی ہوئیں تھیں- مگر تمام انتظام اس کے ہاتھ میں تھا- اس کے باوجود وہ نہ کسی پہ حکم چلاتی تھی نہ اس گھر کی پرائیوسی میں دخل دیتی تھی-محمل ملازموں سے بات کرنے کے علاوہ زیادہ کلام بھی نہ کرتی تھی،وہ بھی شدید ضرورتا اور تیمور تو ویسے بھی ہر شے سے چڑا ہوا لڑکا تھا-سو وہ اسے مخاطب نہیں کرتی تھی-کبھی جو کر لیتی تو تیمور اس بدتمیزی سے پیش اتا کہ الامان-
محمل نے نوٹ کیا تھا کہ تھوڑی بدتمیزی کر کے تیمور چیخنے چلانے پہ آجاتا تھا اور اگر مزید کچھ کہا جائے تو چیزیں اٹھا کرتوڑ پھوڑ کرنے سے بھی گریز نہ کرتا تھا-

Mehar_1
 

مصحف
#
قسط 31
💕
دن پژمردگی سے گزرنے لگے-وہ سارا دن کمرے میں پڑی رہتی، یا فرشتے کے زبردستی مجبور کرنے پہ باہر لان میں آتی اور وہاں بھی گم صم ہی رہتی، فرشتے ہی کوئی نہ کوئی بات کرکے ذہن بٹارہی ہوتی اور یہ باتیں عموما فرشتے اس سے نہیں کرتی تھی- بلکہ اس کی وہیل چئیر دھکیلتے ہوئے کبھی کیاری میں گوڈی کرتے مالی سے مخاطب ہوتی، تو کبھی برآمدے کا فرش دھوتی ملازمہ سے ۔ فرشتے اب اتنا نہیں بولتی تھی،جتنا پہلے بولتی تھی-اس کا انداز پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہوگیا تھا-اور یہ وقت کا اثر تھا، وہ اثر جو نہ چاہتے ہوئے بھی وقت ہر انسان پہ چھوڑے ہی جاتا ہے-

Mehar_1
 

سو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے،اگر وہ مجھے پسند نہیں کرتا-تم بیٹھو، میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں-اب تم نارمل فوڈ لے سکتی ہو- میں نے ڈاکٹر سے بات کر لی تھی- وہ جانے کے لیے کھڑی ہوی تو محمل بے اختیار کہہ اٹھی-
آپ بہت اچھی ہیں فرشتے!میں کبھی آپ کی اس کئیر کا بدلہ نہیں دے سکتی-
میں نے بدلہ کب مانگا ہے؟وہ نرمی سے اس کا گال تھپتھپا کر باہر نکل گئی۔
Episode 30 Complete... ♥️

Mehar_1
 

ہمایوں اسے اپنے ساتھ نہیں سلاتے؟وہ اتنا چھوٹا ہے، وہ اکیلا کیسے سو سکتا ہے؟اس کا دل تڑپ کر رہ گیا-
جن بچوں سے ان کے ماں باپ دونوں چھن جائیں،وہ عادی ہو جاتے ہیں محمل!اگر وہ مجھے پسند کرتا ہوتا تو میں اسے ساتھ سلاتی مگر ۔۔۔۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتا-
کیوں؟وہ بنا سوچے بول اٹھی-جوابا فرشتے اداسی سے مسکرائی-
وہ تو تمہیں بھی پسند نہیں کرتا کیا اس میں تمہارا قصور ہے؟
محمل کا سر آہستہ سے نفی میں ہل گیا-

Mehar_1
 

کوئی بات نہیں محمل! وہ اسی گھر میں رہتا ہے،کسی بھی وقت آ جا سکتا ہے-فرشتے خواہ مخواہ شرمندہ ہورہی تھی-
نہیں فرشتے! تم ان سے کہہ دو مجھے یوں اکیلا نہ کریں-
اس نے بے اختیار فرشتے کے ہاتھ پکڑ لیے-اس کے ہوش میں آنے کے بعد وہ صرف ایک بار اس سے ملنے آیا تھا، پھر کبھی نہیں ایا-
محمل، پلیز میرے لیے تم دونوں بہت عزیز ہو، وہ کزن ہے اور تم بہن ،اس لیے میں نہیں چاہتی کہ میری کسی بات میں تم ہرٹ ہو-پلیز مجھے اچھا نہیں لگتا میں تم دونوں کے پرسنلز میں دخل دوں، مجھے اس کا کوئی حق نہیں ہے-اس نے بہت نرمی سے اسے سمجھایا-وہ اس کے ہاتھ تھامے گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی تھی- محمل لا جواب سی ہوگئی-
اور تیمور؟اس کا کمرہ کدھر ہے؟بے اختیار اسے یاد ایا-
لاؤنج کے اس طرف والا کمرہ-

Mehar_1
 

دایاں ہاتھ ٹھیک بایاں بازو اور ہاتھ سست اور نچلا دھڑ مکمل طور پر مفلوج ،وہ کہتے تھے کہ اچانک - بھی ٹھیک ہو سکتی ہے اور ساری عمر بھی اس طرح رہ سکتی ہے-بس آپ دعا کریں،اب وہ کیا کہتی ، آپ کو لگتا ہے کہ ہم دعا نہیں کرتے؟ مگر ایسی باتیں کہی کہاں جاتی ہیں-
فرشتے اسے لاؤنج کے ساتھ بنے کمرے کی طرف لے گئی- اس وہ اس کے مطابق سیٹ کروا دیا تھا-
مگر میرا کمرہ تو اوپر تھا فرشتے-
محمل ۔۔۔۔۔۔ سیڑھیاں چڑھنا اس وہیل چئیر کے ساتھ-اس نے بات ادھوری چھوڑ دی-اس نے سمجھ کر سر ہلا دیا-
اور ہمایوں کا سامان؟ کچھ دیر چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے وہ پوچھ بیٹھی-ان کا سامان کدھر ہے؟ ہمایوں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اس سے کہا تھا- مگر ۔۔۔۔۔۔ آئی تھنک وہ اپنے کمرے میں زیادہ کمفر ٹیبل ہے-
تو وہ یہاں نہیں آئیں گے؟محمل ششدر رہ گئی-

Mehar_1
 

خوب صورتی سے آراستہ، کونا کونا چمکتا ہوا، فانوس کی روشنیاں، جگر جگر کرتی بتیاں، قیمتی پردے، یہ ہی سب پہلے بھی اس کے گھر میں تھا ،اب بھی تھا، مگر رنگ بدل گئے تھے-
لاؤنج کے صوفے، پردے یہاں تک کہ گملے بھی بدل گئے تھے-چیزیں رکھی گو اسی ترتیب میں تھیں-جیسے ہمایوں تھا- اپنی جگہ پہ ویسے ہی موجود مگر پھر بھی بدل چکا تھا-
کیسا لگا تمہیں اپنا گھر؟ اس کی وہیل چیئر پیچھے سے دھکیلتی فرشتے خوش دلی سے پوچھ رہی تھی-
وہ گم صم خالی خالی آنکھوں سے درو دیوار کو دیکھ رہی تھی-سات سال پہلے وہ اس کا گھر تھا-اب شاید وہ صرف ہمایوں کا تھا-
ڈاکٹرز نے اس کا مزید اسپتال میں رہنا بے فائدہ کہہ کر اسے گھر شفٹ کر دیا تھا-اس کی بیماری وہیں تھی-