حلانکہ نکاح نامے پے نام اسی کا لکھا تھا کشش مرتضیٰ اور زارون علی 💕💕💕💕💕💕💕💕 وہاں سے وہ سیدھا ہوسپٹل آیا تھا جو بھی تھا لیکن وہ مرتضیٰ صاحب کو نقصان نہیں پوھنچانا چاہتا تھا لیکن پھر بھی اپنی فتح پے خوش تھا جس طرح وہ اس کے سامنے رو رہی تھی اسے اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہو رہا تھا جاری هے
لیکن فلحال وہ کچھ بہتر ہیں کچھ دیر میں انھیں ہوش آ جائے گا لیکن آئیندا کے لئے خیال رکھئے گا۔یہ کہہ کے وہ چلے گئے ایسا نہیں تھا کہ انھیں اپنی بیٹی پے یقین نہیں تھا لیکن نکاح نامہ دیکھ کے اور زارون نے جس انداز میں بولا وہ اس بات کو جھٹلا نہ سکے کاشان اور اسکی فیملی بھی جا چکی تھی کیوں کہ وہ ان کے ٹھیک ہونے کے بعد بات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے 💕💕💕💕💕💕💕💕 مرتضیٰ صاحب کو ہوش آ گیا تھا سب انسے ملنے گئے تھے لیکن کشش میں اتنی ہمت اس نے یہ سب نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی اپنے بابا کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھ کے اسے بہت دکھ ہوا تھا کہ اس کے بابا کو اس پے اتنا بھی یقین نہیں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتی اس سب میں اسے اس شخص سے نفرت محسوس ہو رہی تھی جس ki وجہ سے یہ ہوا تھا کیوں کہ وہ اسے جانتی تک نہیں تهی
فاطمہ بیگم نے بھی جب وہ نکاح نامہ دیکھا تو بے یقینی سے کشش کی جانب دیکھا لیکن اس وقت انھیں مرتضیٰ صاحب کی زیادہ فکر تھی ۔آہستہ آہستہ سب نے وہ دیکھا یہاں تک کہ کاشان اور اسکی فیملی نے بھی حمزہ اور فاطمہ بیگم نے مل کے انھیں اٹھایا اور گاڑی تک لاۓ جب کہ زارو ن اس سب میں سکون سے کھڑا تھا جیسے وہ پہلے سے یہ سب جانتا تھا ابھی تو شروعات ہے مس کشش اگے اگے دیکھو میں کیسے تمہاری زندگی جہنم بناتا ہوں کوئی رشتہ نہیں بچے گا تمہارے پاس ۔اس نے تلخی سے سوچا اور وہاں سے ہوسپٹل کی جانب چل پڑا 💕💕💕💕💕💕💕💕 ڈاکٹر بابا کیسے ہیں اب ۔ڈاکٹر کے نکلتے ہی حمزہ علینا فاطمہ بیگم اور کشش کھڑے ہو گئے اور ڈاکٹر سے پوچھا جو کے پچھلے دو گھنٹے سے آپریشن تھیٹر میں تھا دیکھیں انھیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور اس عمر میں ہارٹ اٹیک بہت خطرناک ہے ۔
یہ مذاق نہیں ہے ثبوت ہے میرے پاس۔ زارون نے پاس کھڑے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا تو اس نے ایک کاغذ اسے پکڑایا ۔اس نے وہ انکی جانب بڑھآیا جسے دیکھ ک انہوں نے بے یقینی سے اپنی بیٹی جانب دیکھا تو انکی آنکھوں میں بے یقینی دیکھ کے اسکو حیرت ہوئی اور اسنے اسٹیج سے نیچے اتر وہ کاغذ ان کے ہاتھ سے لیا جسے ک دیکھ ک اسکی اسکی آنکھوں میں مزید حیرت سمائ ۔اور زارون یہ تمام کاروائی بہت سکون سے دیکھ رہا تھا ۔تب ہی اسے اچانک کچھ آواز آئی اس نے مڑ کے دیکھا باباا ا ۔وہ تیزی سے انکی جانب لپکی لیکن انکی آنکھیں بند ہو چکی تھیں بابا آنکھیں کھولیں یہ جھوٹ ہے میں ایسا کیسے کر سکتی ہوں بابا ۔وہ چیخ چیخ کے بول رہی تھی آوازیں سن کے کاشان اور اسکی فیملی بھی اس سائیڈ آ گئے کیوں کہ نکاح سے پہلے انکا انتظام کیا تھا کیا ہوا انہیں وہ جلدی سے انکی جانب بڑھا
جی سر ہو جائے گا ہوں اب جاؤ ۔وہ چلا گیا تو اس نے ایک نمبر ڈائل کیا اور بات کرنے لگا 💕💕💕💕💕💕💕💕 ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا ۔ آج کے دن اسے اس کی یاد آ رہی تھی اپنی خوشیوں میں وہ اس کو بھی دیکھنا چاہتی تھی لیکن قسمت نے اسے اتنا وقت نہ دیا ک وہ ان خوشیوں میں شریک ہو سکے۔ مولوی صاحب سے نکاح ک کلمات ادا کئیے ۔اس نے ایک نظر پاس کھڑے اپنے باپ کی جانب دیکھا تو انہوں نے پیار سے اس کے سر پے ہاتھ رکھا ۔ابھی اس نے بولنے کو اپنے لب وا کیے ہی تھے کہ ایک انجانی آواز وہاں ابھری یہ نکاح نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس نکاح پہلے ہی مجھسے ہو چکا ہے سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔اس ک باپ نے اگے بڑھ کے اس سے پوچھا یہ کیا مذاق ہے ہم تو تمہیں جانتے تک نہیں اور تم میری بیٹی پے الزام لگا رہے ہو ہاہاہاہا آپ نہیں جانتے لیکن آپکی بیٹی تو جانتی ہے نہ اور
وہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی اپنی گردن کو دیکھ رہی تھی جہاں سرخ چھوٹا گول سا نشان تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیسے ہوا نشان تو اب ہلکا سا ہی تھا دو دن پہلے شاپنگ سے واپس آ کے رات میں علینا نے ہی وہ نشان دیکھا تھا اور اس کے بارے میں پوچھا تھا تو اس نے یہی کہا کہ اسے خود نہیں پتا ۔ ابھی وہ دیکھ ہی رہی تھی کہ بیل بجی ۔آج علینا اور فاطمہ بیگم ہی شاپنگ پے گئے تھے جبکہ اس نے جانے سے انکار کر دیا تھا اور مرتضیٰ صاحب اسٹڈی روم میں تھے بیٹا کوئی پارسل آیا ہے آپ کے لئے صائمہ خالہ(ملاذمہ)نے آ کے اسے بتایا میرے لئے؟ اچھا ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں آپ جائیں ۔اسے حیرانی تو ہوئی پر دیکھنے چلی گئی آخر کسنے بھیجا میم یہ آپکا پارسل ۔وہ پوھنچی تو ایک لڑکے نے کہا اس نے وہ پکڑ لیا میم یہ سگنیچر ۔اس نے رجسٹر اس کے اگے کیا ۔تو وہ سائن کر کے واپس آئی
اس نے انکار کیا دیکھیں سر ایسا کیسے ہو سکتا ہے یہ بلکل ال لیگل ہے میں یہ نہیں کر سکتا ۔اس نے صاف انکار کیا دیکھو مجھے انکار سننے کی عادت نہیں ہے یہ کام تم ہی کرو گے ۔اس نے کچھ نوٹوں کے بنڈل نکال کے ٹیبل پے رکھے سر آپ مجھے خرید نہیں سکتے تمہاری ایک بیٹی ہے نہ سات سال کی روز اسکول جاتی ہے لیکن اگر وہ ایک دن گھر واپس ہی نہ آے تو اور تمہاری بیوی وہ تو گھر میں اکیلی ہی ہوتی ہے نہ ایک دن تم گھر جاؤ اور وہ وہاں ملے ہی نہ تو ۔اس نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جبکہ اس کی بات سن کے وکیل کے ماتھے پے پسینے کے قطرے نموںدار ہوئے ٹھ ٹھیک ہے میں کرونگا لیکن اس کے لئے سگنیچر کی ضرورت ہوگی ہمم اسکی تم فکر مت کرو میں انتظام کر لوں گا ۔اور اماونٹ تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائے گی
علینا نے فاطمہ بیگم سے کہا تو حمزہ اور فاطمہ بیگم باہر کی طرف چل دئیے علینا اور کشش ایک جیولری شاپ پے گئیں وہاں رنگ دیکھنے لگیں ابھی وہ دیکھ ہی رہیں تھیں کہ دکان کی لائٹ یکدم بند ہو گئی اور پھر کشش کو اپنی گردن پے چبھن کا احساس ہوا لیکن پھر اچانک شاپ روشن ہو گئ وہ علینا کے پاس گئی اور رنگ پسند کر کہ باہر چلی گئیں 💕💕💕💕 ہاں بولو کام ہو گیا ۔اس نے کسی لڑکی سے سوال کیا جی سر ہوگیا کسی کو خبر نہیں ہونی چاہیے جی سر کسی kکو اس کہ بارے میں پتا نہیں چلے گا ہوں اب تم جا سکتی ہو پیسے تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دئے جائیں گے۔زارون نے سادہ لہجے میں کہا اور کال کٹ کر دی اسی وقت دروازہ نوک ہوا کم ان ۔ایک ملاذمہ اندر آئی اور کسی کے انے کی اطلاح دی ٹھیک ہے تم جاؤ میں آتا ہوں کچھ دیر بعد وہ نیچے آیا اور وکیل کو اپنا کام بتایا تو
اچھا آپ بتائیں کہ آپ کہاں ہیں اور کب آ رہے ہیں ۔نور اس کہ بولنے سے پہلے ہی کہا نور میں اس وقت پاکستان میں ہوں ایک ہفتے تک واپس آؤں گا اور ہاں ایک سرپرائز ہے تمہارے لئے کیا سرپرائز جلدی بتائیں نہ ۔نور نے بیتابی سے اس کی بات کاٹ کے پوچھا نہیں یہ تو تمہیں جب میں آؤں تب ہی پتا چلے گا اور اچھا اب مجھے کام ہے بعد میں بات ہوگی خدا حافظ ۔اور کال کٹ کر دی جب کہ نور سرپرائز کے بارے میں سوچنے لگئی 💕💕 آج وہ علینا اور فاطمہ بیگم حمزہ کے ساتھ شاپنگ کرنے آے تھے ۔شاپنگ کے بعد انہوں نے کچھ کھانے کو کیفے کا رخ کیا ارے کشش تم نے رنگ تو لی ہی نہیں ۔علینا نے کشش سے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کہا نہیں علینا بس اب رہنے دو میں بہت تھک گئیں ہوں پھر کبھی ارے ایسے کیسے چلو میرے ساتھ کچھ نہیں ہوتا ماما آپ جا کے بیٹھ جائیں ہم لے کے آتے ہیں
#Ghalat_Fehmiyan 🌷Ep:4 وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب اس کے موبائل پے عارف کی کال آئی ۔اسے یہاں آے آج دوسرا دن تھا سر ساری معلومات حاصل کر لی ہے مینے ۔عارف نے اسے ساری معلومات دی ہوں وکیل سے کہو آج آ کے ملے مجھے ۔زارون نے سنجیدگی سے کہا جی جی سر ٹھیک ہے ۔اور زارون نے کال کٹ کر دی چار دن بس چار دن سکون کی زندگی جی لو کشش مرتضیٰ کیوں کہ پانچویں دن سے تمہاری زندگی جہنم سے بھی بدتر ہوگی ۔ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ اس کہ موبائل پے دوبارہ کال جب اس نے نمبر دیکھا تو مسکراہٹ اس کے چہرے پے آئی السلام علیکم کہاں ہیں آپ زری ب نور مینے کتنی بار کہا ہے زری مت بولا کرو مجھے ۔زارون نے اس کی بات کاٹ کے کہا کیوں کیوں نہ کہوں میری مرضی ۔نور نے نروٹھے پن سے کہا
اندر داخل ہوتے ہی انکی سماعت میں یہ الفاظ آے کشش نے حیرت سے اپنے بابا کی طرف دیکھا لیکن وہ اسکی طرف متوجہ نہ تھے تو وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی اور کچھ دیر بعد مہمانوں کے جانے کے بعد جب علینا آئی تو وہ مکمل نیند میں تھی وہ مسکرا کے اگے بڑھی اور کپڑے بدل دوسری جانب ا کے لیٹ گئی 💕💕💕💕💕💕💕💕 صبح جب وہ اٹھا جو اسکا سر درد سے بھاری تھا اس نے ملازمہ سے کہہ کے لیموں کا جوس بنوایا ۔اور پھر ناشتہ کرنے کے بعد اپنے ایک دو ضروری کام نبٹانے چلا گیا جاری ہے
اور کب اسکی آنکھ لگی اسے خبر نہ ہوئی 💟💟💟 وہ سب ویسے ہی باتوں میں مصروف تھے کے فاطمہ بیگم نے کھانے کا بتایا تو سب ٹیبل پے آ گئے اور کھانے کے بعد انہوں نے کاشان اور کشش کو اکیلے بات کرنے کی غرض سے باہر لا ن میں بھیج دیا وہ دونوں ویسے ہی خاموش تھے آخر کاشان نے بات کا آغاز کیا اگر یہ رشتہ ہوتا ہے تو کیا آپ اس سے خوش ہیں ۔اس نے رک کے کشش کی جانب دیکھ کے پوچھا تو وہ بھی رک گئی میرے لئے ماما بابا جو کریں گے وہ یقیناً بہتر ہوگا میرے لئے ۔اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا اس کا جواب سن کے وہ مسکرایا اور پھر ایسے ہی ایک دوسری پسند نہ پسند کے بارے میں سوالات کیے تب ہی علینا ان دونوں کو اندر بولانے کے لئے آئی تو وہ اندر چل دئے ہاں بھئی پھر ٹھیک ہے نہ اگلے جمعہ کو نکاح اور رخصتی کشش کی پڑھائی کے بعد ۔
نہیں مجھے کہیں نہیں جانا ۔اس نے بیزاریت سے جواب دیا چلو نہ تھوڑا سا ڈانس ہو جائے ۔اس نے زبردستی اسے اٹھایا اور اس جگہ لائی جہاں پہلے سے کافی لوگ موجود ڈانس میں مگن تھے ۔اس نے زارون کا ایک ہاتھ اپنی کمر پے رکھا اور ایک کندھے پے جبکہ اپنی دونوں ہاتھ اسکے کندھے پے رکھے ۔اور وہ وہاں سے گیا نہیں کیوں کہ وہ اب مد ہوش ہو رہا آنکھیں بند ہو رہی تھیں اسکی باے دا وے میرا نام رحمہ ہے اور تمہارا ؟۔رحمہ نے اس سے سوال پوچھا زارون علی ۔اس نے وہاں سے جانے کی کوشش کی کیونکہ اب وہ زیادہ دیر یہاں روکتا تو واپس نہیں جا پاتا لیکن رحمہ نے اسے روک لیا ہمم ناءس نیم ۔رحمہ نے اسکی تعریف کی اور اس کے مزید قریب ہونے لگئی جب کہ اس نے اب جھٹکے سے اسے دور کیا اور وہاں سے نکل گیا اور ریش ڈرائیو کر کے گھر پوھنچا اور کمرے میں جاتے ہی بیڈ پے دراز ہو گیا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain