میری ماں کی دُعاؤں سے پریشان ہے میرادشمن
وہ جب بھی وارکرتاہے تو خنجرٹوٹ جاتاہے۔
ماں کی ممتامت پوچھو!!!
چڑیاسانپ سے لڑجاتی ہے۔
لو گو ں سے کہہ دو میری تقدیر سے جلنا چھو ڑ دیں
ہم گھر سے دو لت نہیں ’’ماں ‘‘کی دُ عا لے کر نکلتے ہیں۔
جانتے ہیں انسان کسے کہتے ہیں؟؟؟
جس کی آنکھ میں احترام ہو اور الفاظ میں نرمی جس کے اخلاق میں رحم دلی اور مقاصد میں اعلی ظرفی ہو
مدتیں لگتی ہیں اپنا بنانے میں
لوگ لمحوں میں پرایا کردیتے ہیں
کون دیکھتا ہے کسی کو اب سیرت اخلاق کی نظر سے
صرف خوبصورتی کو پوجتے ہیں نئے زمانے کے لوگ
کیوں کریں بھروسہ غیروں پر
جب چلنا ہے اپنے پیروں پر
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
خطائیں ہو ہی جاتی ہیں ازالے بھی تو ممکن ہیں
جسے ہم سے شکائیت ہو اسے کہنا ملے ہم سے
بنا مطلب کے کون کس کو پوچھتا ہے جناب
بنا روح کے تو گھر والے جسم کو بھی نہیں رکھتے
ڈستے ہیں یہاں انسانوں کو انسان ہی اپنے لفظوں سے
ماحول ہمارا ایسا ہے سانپوں کی ضرورت اب نہ رہی
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﭼﻠﯿﮟ
ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮔﺮﯼ ﮨﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ
کون ہوتا ہے مصیبت میں کسی کا دوست
آگ لگتی ہے تو پتے بھی ہوا دیتے ہیں
جن پر ہوتا ہے بہت دل کو بھروسہ
وقت پڑنے پر وہی لوگ دغا دیتے ہیں
آئینوں سے ڈر جائیں گے لوگ یہاں
کبھی کردار نظر آیا جو چہرے کی جگہ
کہاں وفا ملتی ہے مٹی کے ان حسین انسانوں سے
یہ لوگ بغیر مطلب کے خدا کو بھی یاد نہیں کرتے
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے ۔۔
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے ۔۔
چڑھتی رہیں مزاروں پے چادر تو بے شمار
باہر جو اک فقیر تھا سردی سے مر گیا
اپنے تو وہ ہوتے ہیں جنہیں درد کا احساس ہو
ورنہ حال تو رستے میں آنے جانے والے بھی پوچھ لیتے ہیں
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نہ امیدی
مجھے بتا تو صحیح اور کافری کیا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain