محبت صرف تم سے
صبح ہوئے تو نور اپنے والدین کے ساتھ
اسلامآباد کو روانہ ہوئے گلابی رنگ کا فراک پہنے تنگ چھوڑی دار پاجامہ میں گزب خوب صورت لگ رہی تھی یوں تو وہ ایک درایور کی بیٹی تھی مگر خوب صورت اسے کے مانو کہی کی شہزادی ہو
نرم دل حساس طبیعت کی مالک سب کے دلوں میں گھر کر جانے والے لڑکی جو بھی اسے بات کرتا تو اس کا دیوانہ ہوجاتا ایسا لگتا جیسے صدیوں سے جانتے ہوں اسے
لیکن اسے ایک چیز سے چڑ تھی اسے لگتا تھا کے امیر لوگ بہت بے رحم اور تنگ دل کے مالک ہوتے ہیں مطلب پرست اسے لیے اسے اس بات کا بہت فقر تھا کہ وه جہاں جا رہے ہیں وه لوگ اچھے ہوں
محبت صرف تم سے
ان کے دو بیٹے تھے عرفان اور سلیمان سلیمان ان کے بڑے بیٹے تھے اور عرفان چھوٹے عرفان کو ایک بیٹی ور ایک بیٹا تھا جب کے سلیمان کو ایک ہی بیٹا تھا علی علی جب چھوٹا تھا تو اس کے ماں باپ فوت ہوگئی تھے علی فیضان کے بڑے بیٹے کی اولاد تھا ور ان کا بڑا پوتا جو کے فیضان دادا جی کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا فیضان اسے بہت محبت کرتے تھے علی کو گانا گانے اور جگہہ جگہہ گھومنے کا بہت شوق تھا علی ایک گلوکار بننہ چاھتا تھا اس کی عمر ٢٣ سال تھی اور ایک کونسڑت کے لیے یورپ گیا ہوا تھا جیسا کے علی کے باپ دادا خاندانی زمیںدار تھے تو اس کا ناچ گانا اس کے چچا کو زیادہ پسند نہیں تھا لیکن اس کے شوق کو دیکھ کر کسی نے کبھی اسے روکا نہیں
رات ہوئے تو ماں بیٹی کھانے کے لیے بیٹھی
اماں ایک بات بتاؤ بھلا ایسا کون ہوتا ہے جو کسی کو اتنی دور سے کام کے لیے بلائی اور رہنے کے لیے گھر بھی دے اتنی اچھی پگار بھی دے آپ کو عجیب نہیں لگ رہا ؟
مطلب آج کے زمانے میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کیا
وه بری حیرت ور تعجب سے بولی
ہوتے ہیں بیٹا آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں لوگوں کا احساس ہوتا ہے جو انسان کے لباس میں انسان ہی ہوتے ہیں وہی برے لوگ بھی ہیں جنھیں کسی کا کوئی احساس نہیں ہوتا
وه ماں کی باتیں سنتے اور حامی بھرتی جا رہی تھی
اباں جان کسی کام سے باہر تھے جو کے دیر سے انے والے تھے
اچھا امی ابا جہاں کام کرنے والے ہیں کیا نام بتایا تھا تایا نے وه سوچتے ہوئے بولی
ان کا نام فیضان ہے نور
فیضان ایک بہت بڑے رئیس تھے جنکی خاندانی بہت زمیں جائداد اور بڑی بڑی فیکٹريان تھی
محبت صرف تم سے
یہ کیسا سوال ہوا تم میری بیسٹ فریڈ ہو میں تمہیں کیسے بھول سکتی ہوں ور یہ دیکھو یہ فون ایک چوٹی سی چیز ہے مگر میلوں کے فاصلے مٹا دیتی ہے
وه اپنے فون کو دیکھ کر تسلی سے بولی
باتیں کرتے کرتے شام ہوگئی ور دونو نے سامان بھی پیک کر لیا تو رابعہ گھر جانے لگی
اچھا نور اب میں چلتی ہوں
کتنا اچھا ہوتا اگر آج تم یہی رک جاتی وه اداس ہوکر بولی نہیں یار اماں سے بولا تھا مگر اجازت نہیں دی انہونے مگر میں کل سبھ آجاؤگی
پکا نہ ؟
ہان پکا چلو پھر میں چلتی ہوں
اوکے اللہ حافظ
اللہ حافظ خالہ
اللہ حافظ بیٹا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain