جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایا ہے کہ تم ہو اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو ہر بزم میں موضوع سخن دل زدگاں کا اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلیٰ ہے کہ تم ہو اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو وہ وقت نہ آئے کہ دل زار بھی سوچے اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو
کٹھن ہے راہ گزر تھوڑی دور ساتھ چلو بہت کڑا ہے سفر تھوڑی دور ساتھ چلو تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے یہ جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو نشے میں چور ہوں میں بھی تمہیں بھی ہوش نہیں بڑا مزہ ہو اگر تھوڑی دور ساتھ چلو یہ ایک شب کی ملاقات بھی غنیمت ہے کسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ چلو ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے ابھی ہے دور سحر تھوڑی دور ساتھ چلو طواف منزل جاناں ہمیں بھی کرنا ہے فرازؔ تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں ہم اگر منزلیں نہ بن پائے منزلوں تک کا راستا ہو جائیں دیر سے سوچ میں ہیں پروانے راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
راحت کیوں نہیں ملتی چین کیوں نہیں آتا اس بیقراری کو آخر قرار کیوں نہیں آتا خوشبو کم نہ ھو تیرے وجود کی میرے اندر تیرے بغیر میرے دل کو چین کیوں نہیں آتا تنہا تھا اور تنہا ھی رھا تیرے بناُ میں بہت الفت رھتی ھے تجھ سے بہت تو ہی نہیں آتا خاموشی میں بیٹھے جو تیری یاد آستاتی ھے مجھے لکھتا رھتا ھوں خط تجھے مگر کوںُی جواب نہیں آتا آنکھیں تھک گیُں تیری راہ کو دیکھ دیکھ کر بہت سب گزر جاتے ھیں مگر تو ھی نہیں آتا بنا دیا ھے درویش تیری یادوں نے مجھے پھر بھی تجھے اس بات کا یقین نہیں آتا
uno Tum Loot Ao Na Suno Tum Loot B Ao Suno Daikho Meri Halt Suno Kbhi Tum B Daikho Na Ye Tanhai Ki Ahain Ye Ruswai Ka Manzer Ye Muskan Rothi Si Meri Ujri Hui Duniya Hain Khushiyan B Jhoti Si Suno Ab Loat Ao Na Tumhary Bin Ye Dharkan Bra Hi Qaher Dhati Hain Suno Tum Bin Mujy Duniya Bari Hi Zaher Lagti Hai Suno Tum Janty B Ho K Kitna Hai Adhora Sab Tumhary Bin Meri Hasti Tumhary Bin Meri Duniya Suno Ab Loat Ao Na Suno Tum Loat Ao Na
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
ملنا تھا اتفاق بچھڑنا نصیب تھا وہ اتنی دور ہو گیا جتنا قریب تھا میں اس کو دیکھنے کو ترستی ہی رہ گئی جس شخص کی ہتھیلی پہ میرا نصیب تھا بستی کے سارے لوگ ہی آتش پرست تھے گھر جل رہا تھا اور سمندر قریب تھا مریم کہاں تلاش کرے اپنے خون کو ہر شخص کے گلے میں نشان صلیب تھا دفنا دیا گیا مجھے چاندی کی قبر میں میں جس کو چاہتی تھی وہ لڑکا غریب تھا
رنگ اس موسم میں بھرنا چاہئے سوچتی ہوں پیار کرنا چاہئے زندگی کو زندگی کے واسطے روز جینا روز مرنا چاہئے دوستی سے تجربہ یہ ہو گیا دشمنوں سے پیار کرنا چاہئے پیار کا اقرار دل میں ہو مگر کوئی پوچھے تو مکرنا چاہئے 🥀🌚
تم کو بھلا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے میں زہر کھا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے کل میری ایک پیاری سہیلی کتاب میں اک خط چھپا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے اس وقت رات رانی مرے سونے صحن میں خوشبو لٹا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے ایمان جانئے کہ اسے کفر جانئے میں سر جھکا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے کل شام چھت پہ میر تقی میرؔ کی غزل میں گنگنا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے
کچھ دن سے زندگی مجھے پہچانتی نہیں یوں دیکھتی ہے جیسے مجھے جانتی نہیں وہ بے وفا جو راہ میں ٹکرا گیا کہیں کہہ دوں گی میں بھی صاف کہ پہچانتی نہیں سمجھایا بارہا کہ بچو پیار ویار سے لیکن کوئی سہیلی کہا مانتی نہیں میں نے تجھے معاف کیا جا کہیں بھی جا میں بزدلوں پہ اپنی کماں تانتی نہیں انجمؔ پہ ہنس رہا ہے تو ہنستا رہے جہاں میں بےوقوفیوں کا برا مانتی نہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain