نے جتنے دن جیل میں گزارا، اگر میں گزارا ہوتا تو میں فورا رہائی کی خبر کو قبول کرتے ہوئے باہر آجاتا(مسلم: ۱۵۱)حالانکہ خود آپ ﷺ حلم وبردباری اور صبر واستقلال کے سراپا پیکر تھے۔
بہر حال آپ افضل الانبیاء ہونے کے باوجود اپنی افضلیت کا اظہار نہیں کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی تعریف میں غلو کیا تم لوگ میرے بارے میں اس طرح غلو مت کرنا، مجھے تم اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو(صحیح بخاری : ۳۴۴۵)
یقینا آپ ﷺکی ذات خوبیوں کا حسین گلدستہ تھی اور آپﷺ اعلی صفات ، عمدہ اخلاق کے پیکر مجسم تھے۔
فَصَلَّی اللہُ عَلَی سَیِّدِنَا محمدٍ وَّعَلی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَبَارَکَ وَسَلَّم تَسْلِیْماکثیراً
بڑھاتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا (تاریخ دمشق لابن عساکر: ۲۲۰۹)
کمالات کی تمام تر بلندی کو پیچھے چھوڑنے اور افضل الانبیاء ہونے کی باوجود اپنے بارے میں یہ کہتے کہ کسی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ میرے بارے میں یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں(بخاری: ۳۳۹۵) بلکہ کئی موقع پر آپ ﷺنے دیگر انبیاء کی بعض صفات کی تعریف فرمائی اور ان کو بہتر بتایا، مثلا حضرت یوسف علیہ السلام کو جب طویل عرصہ جیل میں گزارنے کےبعد رہائی کی خبر ملی تو وہ جیل سے فوراباہر نہیں آئے، بلکہ صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلےاپنی انگلیاں کاٹنے والی عورتوں کے بارے میں بتاؤ، یعنی کیا اس مقدمہ میں ان کی غلطی اور میری پاکبازی ظاہر ہوئی یا نہیں؟ رسول اللہ ﷺ حضرت یوسف علیہ السلام کے اس حلم اورصبر واستقلال کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام نے جتنے
وجہ سے )دھوپ میں سکھایا ہوا گوشت کھاتے تھے(مستدرک حاکم: ۴۳۶۶)
اسی فتح مکہ کے موقع پر جب آپﷺ مکہ میں فاتحانہ داخل ہورہے تھے تو آپ ﷺ کے مکہ میں داخل ہونے کا انداز شاہانہ نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ مکہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک جھکارکھا تھا۔
اسی طرح آپ ﷺ کے تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ غریبوں،کمزوروں اور غلاموںکی عیادت کیا کرتے تھے،ان کے گھروں کو جایا کرتے تھے، اور جب کسی سے مصافحہ کرتے تو جب تک سامنے والا خود اپنا ہاتھ آپ ﷺکے ہاتھ سے نہ کھینچنا آپ ﷺ بھی اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے، جب تک بات کرنے والا خود چہرہ نہ پھیرتا آپ ﷺ بھی اس کی طرف متوجہ رہتے اور اس سے چہرہ نہ پھیرتے ، کبھی بھی آپ ﷺ کو اپنے بازو میں بیٹھے ہوئے شخص سے آگے بڑھ کربیٹھتے ہوئے اور اس کے گھٹنے سے اپنے گھٹنوں کو آگے بڑھاتے ہوئے
کرتے ہیں آپ ﷺ بھی کیا کرتے تھے(مسند احمد: ۲۵۳۴۱)
آپ ﷺ کے تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ کی نظر میں امیر وغریب کا کوئی امتیاز نہیں تھا، اور آپ ﷺ محتاج اور غریبوں کی دعوت بھی قبول کرتے تھے اور خود آپ نے اپنے بارے میں فرمایاکہ اگر مجھے جانور کے کھر کی بھی دعوت دی جائے یا اسے ہدیہ میں پیش کیا جائے تو میں قبول کروں گا۔(بخاری: ۲۵۶۸)
اور جب کوئی شخص آپ ﷺسے بات کرنے میں گھبراتا تو اس کی گھبراہٹ کو دور کرتے اور اس کی پوری بات سنتے ، کسی کی بات سننے میں جلد بازی یا اکتاہٹ کا اظہار نہ فرماتے ، فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص آپ ﷺ سے کچھ باتیں کرنے کے لئے آپ کی مجلس میں حاضر ہوا، جب آپ ﷺسے وہ مخاطب ہوا تو ہیبت کے مارے کانپنے لگا،تو آپ ﷺ نے اس کو سمجھایا اور فرمایا کہ ڈرو مت ، میں تواسی قبیلہ قریش کی ایک خاتون کا بیٹا ہوں جس قبیلہ کے لوگ (غربت کی وجہ
ہوئی تھی اور جس زین پر آپ ﷺ بیٹھے تھے وہ بھی کھجور کی چھال سے بنا ہوا تھا (سنن ابن ماجہ: ۴۱۷۸) حالانکہ مالدار صحابہ جس طرح آپ ﷺپر جاں نثار تھے اور فتوحات کی وجہ سے بیت المال میں جو دولت کی کثرت تھی اس سے آپ قیمتی جوڑے زیب تن کرسکتے تھے اور اس زمانہ کے سب سے قیمتی اونٹ کو سواری بنا سکتے تھے۔
گھریلو زندگی میں آپ ﷺاس قدر متواضع تھے کہ گھر کے کام کاج میں گھر والوں کے ساتھ شریک رہتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جتنی دیر رسول اللہ ﷺ گھر میں رہتے گھر کے لوگوں کے کام انجام دینے میں مصروف رہتے، اور جب اذان ہوجاتی تو آپ چلے جاتے(بخاری: ۶۷۶)
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول منقول ہے کہ آپ ﷺ اپنے جوتے اور کپڑے خود سل لیتے، جس طرح عام لوگ اپنے گھروں میں کام
لئے اس تعظیم کو پسند نہیں فرمایا، اور اس عمل سے آپ کی ناگواری کی وجہ سے صحابہ کرام ؓ آپ کے لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے(مسند احمد: ۱۲۳۴۵)
مجلس میں آپ ﷺاس قدر متواضع ہوا کرتے کہ صحابہ ؓ کے ساتھ مل کر بیٹھتے،چناں چہ کسی امتیاز کے نہ ہونے کی وجہ سے نو واردین آپ کو پہچان نہیں پاتے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوںنے چاہا کہ حضور اکرم ﷺ کے لئے مسند وغیرہ بنا دیں جس کی وجہ سے اجنبی شخص جب آپ کے پاس آئے تو آپ کو پہچان لے، چناں چہ ہم لوگوں نے ایک مٹی کا چبوترہ بنایا ، آپ ﷺ اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے(ابوداؤد: ۴۶۹۸)
آپ ﷺ کا یہ تواضع ہی تھا کہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنا کرتے تھے، اور گدھے پر سوار ہوکر سفر کرلیا کرتے تھے، غزوہ خیبر میں آپﷺ گدھے پر سوار تھے ، جس کی رسی کھجوڑ کی چھال سے بنی ہوئی تھ
ھے، ایک مرتبہ ایک پاگل عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ آپ ﷺ سے مجھے ایک کام ہے ، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ بتاؤ میں تمہارے کام انجام دینے کے لئے کدھر اور کہاں چلوں؟ چناں چہ آپ ﷺ کسی راستہ پر اس کے ساتھ گئے اور اس کی ضرورت پوری کردی (مسلم: ۲۳۲۶)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے دست مبارک سے برکت لینے کی خاطر اپنے پانی میں دست مبارک ڈالنے کی درخواست کرتے تو اسے رسول اللہ ﷺ قبول کرلیتے حتی مدینہ کے خدام سخت سردی کے موسم میں پانی لے کر آجاتے اور آپ ﷺ پانی میں دست مبارک ڈال دیتے(مسلم: ۲۳۲۴)
آپ ﷺ نے بڑوں کی تعظیم کے حوالے سے یہ تعلیم دی ہےکہ ان کے استقبال میں ان کی تعظیم کرتے ہوئے مجلس میں موجود افراد کھڑ ے ہوجائیں ، لیکن آپ ﷺ نے خود اپنے لئے اس تعظیم کو پسند نہیں
ہوتا ہے ، اور جو تکبر کرتا ہے اللہ اس کو ذلیل کردیتا ہے ، چناں چہ تکبر کرنے والا شخص گرچہ کہ خود کو بڑا سمجھتا ہے لیکن وہ لوگوں کی نظر میں کم تر بلکہ خنزیر یا کتے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجاتا ہے‘‘
نبی اکرم ﷺ نے جن خوبیوں کی تعلیم دی ہے آپ کی ذات میں وہ تمام خوبیاں کامل درجہ پر موجود تھیں ، چناں چہ آپ ﷺ محبوب رب العالمین ، سید الانبیاء والمرسلین ، شاہ کونین ہونے کے باوجود اعلی درجہ کے منکسر المزاج اور متواضع تھے،اور آپ کی مجلس ، لوگوں سے آپ کی ملاقات، آپ کی نشست وبرخاست ، آپ کی گفتگو وغیرہ میں کوئی شاہانہ نخرے نہ تھے،جیسا کہ بہت سے واقعات اس پر شاہد ہیں،آپ ﷺ صحابہ کرام سے مزاح فرمایا کرتے تھے ،بلکہ کئی بار صحابہ کرام بھی آپ ﷺسے مزاح فرماتےتھے،آپﷺ تک رسائی آسان تھی، اور آپ ﷺ ہر ایک کے کام آیا کرتے تھے،
میں اعتدال (میانہ روی )کو اختیار کرتا ہے ، اللہ اسے غنی بنادیتا ہے ، جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ اس کو فقیر بنادیتا ہے ، جو تواضع (انکساری) اختیار کرتا ہے، اللہ اس کو بلندی عطافرمادیتا ہے ، اور جو ظلم زیادتی اور تکبر کرتا ہے اللہ اسے توڑدیتا ہے‘‘
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی سنا ہے:
من تواضع لله رفعهُ اللهُ، فهو في نفسِه صغيرٌ، وفي أَعْيُنِ الناسِ عظيمٌ، ومن تكبر وضعهُ اللهُ، فهو في أَعْيُنِ الناسِ صغيرٌ، وفي نفسِه كبيرٌ ؛ حتى لَهُوَ أَهْوَنُ عليهم من كَلْبٍ أو خِنْزيرٍ .(شعب الایمان للبیقہی: ۷۷۹۰)
’’جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر توا ضع اختیار کرتا ہے ، اللہ اسے بلند کردیتا ہے ، اور ایسا شخص اگرچہ کہ خود کو کم تر سمجھتا ہے ،لیکن وہ لوگوں کی نگاہ میں باعظمت ہوتا ہے ، اور ج
تواضع : ایک انسانی صفت ہے کہ جب انسان میں یہ صفت پیدا ہوجاتی ہے تو انسان خود کو دوسروں سے اعلی اور افضل وبرتر سمجھنے کے بجائے دوسروں کو بہتر و برتر سمجھتا ہے اور دوسروں کااحترام واکرام اپنا فریضہ سمجھتا ہے ۔
اسلام میں یہ صفت بہت ہی محبوب ہے اور یہ انسان کو اللہ کی قربت سے ہمکنار کرنے والی صفت ہے ، اور جب انسان اس صفت سے خود کو آراستہ کرتا ہے تو گرچہ کہ وہ خود کو دوسروں سے حقیر سمجھتا ہے لیکن اللہ اس صفت کی وجہ سے اس کو خلائق کا محبوب بناکر بلند مرتبہ پر فائز کردیتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے:
من اقتصدَ أغناهُ اللهُ، و منْ بَذَّرَ أفقرَهُ اللهُ، و منْ تواضعَ رفعهُ اللهُ، و منْ تجبر قصمهُ اللهُ (الجامع الصغیر:۸۵۰۱)
’’جوخرچ میں اعتدال (میانہ
زندگی اتنے دکھ کیوں دیتی ہے
دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہی کے ٹکڑوں پہ پلنے والے جب اپنی بھوک مٹانے کے لئے جیسے ہی ان کی حکمرانی جاتے دیکھتے ہیں تو مٹھائیاں تقسیم کرتے اور بھنگڑے ڈالتے فوٹو شوٹ کرانے کے لئے ادھار مٹھائیاں بھی خریدتے ہیں پھر ان کی جگہ آنے والے حکمرانی میں حصہ بقدر اپنی جگہ بنانے کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں اور آنے والے کے ساتھ بھی اپنے سابقہ کردار ادا کرنے کے لئے عوام میں ان کی مقبولیت کھونے کا احساس تک نہیں ہونے دیتے۔
سن تو سہی جہاں میں تیرا افسانہ ہے کیا
کہہ رہی ہے مخلوق خدا تجھے غائبانہ کیا
end
یں بھی کم تر نہیں ہوتے۔ اب ان خوشامدیوں کا ذکر کرتے چلیں جب آپ ٹی وی آن کرتے ہیں تو بڑے نامور خوشامد تمام چھوٹے بڑے چینلز پر بھی اپنی شاہانہ خوشامدی گفتگو کے ساتھ رات کو لگنے والی عدالتوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اور جس ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ وہ اپنے لیڈر کی شان میں ایسی ایسی گفتگو فرماتے ہیں کہ خدا کی پناہ اللہ تیری شان اور ایسے قصیدے اور دفاع کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر عام آدمی بھی شاید پانی پانی ہو جاتا ہوگا مگر مجال ہے کہ ان کے چہرے پر ایک لمحہ بھی شرمندگی آئے اور تو اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جہاں تاریخ کو ادھیڑتے نظر آتے ہیں وہاں جھوٹ اس قدر بولتے ہیں کہ بعض اوقات وہ سچ نظر آنے لگتا ہے۔ ہماری سول سوسائٹی ہو یا سیاسی قد کاٹھ والے بونے خوشامدی در اصل ملک و ملت کو ہی نہیں بلکہ ہماری تھوڑی بہت بچی کھچی جمہوریت کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہ
ل مشہور ہے کہ جہاں دو خوشامدی اکھٹے ہوتے ہیں تو وہاں شیطان رخصت پہ چلا جاتا ہے۔ آج کے دور میں ان خوشامدی حضرات کو بڑا واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم سوشل میڈیا کے بڑے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں اگر میں غلط نہ کہوں تو ہر سیاسی جماعت کے اندر ایک ریاست موجود ہے اور اس ریاست پر بڑے بڑے خوشامدی براجمان ہیں جو ظل سبحانی، عالی جناب ، عالی مرتبت، عالم پناہ، جہاں پناہ اور جان کی امان پاؤں تو عرض کرنے کے لئے ہمہ تن آپ کی اجازات کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ ان خوشامدی، مداری ، اور خاص کر نامور درباریوں نے تو اقتدار کے ایوانوں تک کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو حاکموں کو سب اچھا ہے کہہ کر تمام حالات سے بے خبر اور بے خوف کرتے رہتے ہیں۔ ان کی شاہانہ طرز زندگی، شاہانہ طعام و جام اور شاہانا جاہ و جال پرانے بادشاہوں اور شہزادوں سے کہیں بھی کم تر ن
نسلوں کے اندر بھی اترنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان کی خوشامدیوں کی قسموں کو دیکھیں تو ان میں ایک ہوتے ہیں ’’ویلے‘‘ جن کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا اور اپنے کام نکلوانے کے لئے مکھن کی فیکٹری ساتھ رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ خوشامدی جو دفتر کے اندر عہدے کے مطابق اپنے افسران کی قربت حاصل کرنے کے لئے پورے آفس میں ان کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں۔ خاص کر چھوٹے سٹاف کی شکل میں تو بڑے خوشامدی نظر آئیں گے۔ وہ آفس کے کام کم تو افسران کے ذاتی کاموں کو سرانجام دینے کے لئے بڑے خوش نظر آتے ہیں اور بعض ان کے بچوں اور بیگمات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کو افسران کے آنے اور جانے یعنی ہر وقت ان کے وقت پر گہری نظر ہوتی ہے اور جس دن صاحب دفتر نہیں آتے تو دوسرے لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ صاحب لاہور سے باہر گئے ہیں اور مجھے پتہ ہے کیوں گئے ہیں۔
ایک مثل مشہور ہ
کس مکھن کی تاثیر کتنی اچھی ہے اگر اب مکھن کا ذکر چلا ہے تو وہ کون کس کو نہیں لگاتا آپ نامور ہیں، آپ کا شمار بڑے لوگوں میں ہوتا ہے یا بڑے لوگوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں یا دوسروں کی نظر میں بڑے پن کے طور پر جب آپ کو لے لیا جاتا ہے تو پھر مان جایئے کہ آپ کے اردگرد دوستی کی آڑ میں خوشامدی اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو آپ کا دماغ خراب نہ ہونے کے باوجود خراب کر دیتے ہیں۔ آپ کچھ کریں نہ کریں وہ آپ کو ایسا مکھن لگائیں گے کہ انسان سوچتا ہے کہ یہ تو میری اوقات ہی نہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ خوشامدی لوگ کون ہوتے ہیں یا کبھی ہم ان کو ’’چمچے‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ کون اور کہاں سے آ جاتے ہیں۔ خاص کر سرکاری افسران بالا کے اردگرد گھومنے والی کلاس کے اندر ان کی بڑی کلاسز ہوتی ہیں اور جب تک آپ سے ان کے مفاد پورے نہیں ہو جاتے وہ آپ کی نسلو
کسی آفس، تقریب، خوشی مرگ کے مواقع، چھوٹے گروپس سے بڑے اداروں تک، سرکاری دفاتر سے ہر ماحول میں آپ نے ان لوگوں کو ضرور اپنے اردگرد پایا ہوگا جو خود کسی کام کے تو نہیں ہوتے مگر وہ کھانے پینے سے لے کر اپنی دیہاڑی لانے اور مفادات کی خاطر آپ کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں وہ اس قدر آپ کے بارے بول بولتے ہیں کہ آپ زمین نہیں آسمان پر ہیں۔ آپ کے اس قدر گن گاتے ہیں کہ بعض اوقات شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ آپ کے یہ دوست لوگ کون ہیں؟ کبھی آپ نے ان کو پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ہمارے اردگرد کے ماحول میں یوں تو بڑے بڑے ایکٹر کریکٹر صبح سے رات گئے تک کہیں ایک دوسرے کی مخالفتیں کرتے تو کہیں اپنے مفادات کے لئے آپ کی خاطر خوشامدی باتیں کرتے ہوئے آپ کو بڑا مکھن لگاتے ہیں۔ یوں تو اب مارکیٹ میں اتنے برینڈ کے مکھن آ گئے ہیں کہ نہیں پتہ کہ کس مکھن کی ت
ہو گیا۔
ہمارے ساتھ دوسرا درویش بھی بیٹھا تھا‘ وہ یہ کہانی سن کر سیدھا ہوا اور بولا ’’لو پھر میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بڑی کہانی سناتا ہوں‘‘۔
اپنا اے سی‘ اپنا پنکھا‘ اپنا ہیٹر‘ پرفیوم کی اپنی بوتل یا بوتلیں‘ پارک میں واک‘ سردیوں میں گھنٹوں دھوپ میں بیٹھنا اور گرمیوں میں ٹھنڈا کمرہ‘ صاف پانی اور اپنی مرضی کا کافی کا کپ اور کسی بھی وقت کسی سے بھی ملاقات دنیا میں اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوتی اگر یقین نہ آئے تو آپ دس ماہ جیل میں گزار کر دیکھیں آپ کو ایک ایک چیز کی قدر ہو جائے گی‘ آپ یقین کریں جیل کے ان دس مہینوں کے بعد زندگی سے میرے سارے شکوے ختم ہو گئے ‘ میں اب کھانے پر اعتراض کرتا ہوں اور نہ اجنبیوں سے ملاقات سے‘ جیل جا کر معلوم ہوا اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس کس نعمت سے نواز رکھا ہے‘ مجھے وہاں جا کر پتا چلا اپنی مرضی سے فٹ پاتھ پر چلنا بھی اللہ کا کتنا بڑا انعام ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain