انتظار کر رہی تھی۔ باغ کے مالک کا نام حضرت سید عبداللہ صو معی تھا جو اپنے وقت کے بہت بڑے صوفی تھے ان کا سلسلہ نسب تیرھویں پشت سے حضرت حسین سے مل جا تا ہے ان کی بیٹی کا نام فا طمہ تھا جو اپنے وقت کی بہت بڑی عابدہ اور نیک خاتون تھیں اور نوجوان جس سے سیدہ فاطمہ کی شادی ہو ئی وہ اپنے وقت کے نامور بزرگ حضرت سید ابو صالح موسی تھے۔ قدرت کا ایک بہت خوبصورت راز ہے جب وہ اپنے کسی خاص بندے کو دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کے لیے شاندار زمین تیار کر تا ہے جس میں دنیاکی انمول فصل تیار ہو سکے سیب کھانے والے نوجوان اور عظیم صوفی کی بیٹی یہی وہ عظیم والدین تھے جن کے گھر میں اولیا کے سر تاج اولیا کے چاند روشن ہو ئے جس کو دنیا غوث ِ اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے نام سے جانتی ہے۔
end
ے میں گیا تو اس کو خوشگوار جھٹکا لگا اندر جو لڑکی تھی وہ صحت مند اور بہت خوبصورت تھی نہ ہی وہ اندھی تھی اور نہ ہی معذور نوجوان تیزی سے با ہر نکلا اور اپنے خسر کے پاس جا کر کہا کہ اندر کو ئی اور لڑکی بیٹھی ہے تو خسر مسکرایا اور کہا اے بچے وہ تیری ہی بیوی ہے اور مالک کا ئنات نے تجھے اِس آزمائش میں ثابت قدم رکھا۔ مگر آپ نے غلط بیانی سے کیوں کام لیا؟
نوجوان سچ جاننے کے لیے بے قرا ر تھا۔ تو بوڑھا بولا نوجوان میں نے جھوٹ نہیں بولا میں نے اپنی بیٹی کی پر ورش اسلام کے مطابق کی ہے وہ آج تک کسی نامحرم کے سامنے نہیں آئی اِس لیے وہ اندھی ہے اور آج تک اس کے قدم گنا ہ کی طرف نہیں اٹھے اِ س لیے وہ اپاہج ہے۔ نوجوان نے خوشگوار حیرت سے اپنے خسر کی باتیں سنیں مالک خدا کا شکر ادا کر کے اپنے کمرے میں داخل ہوگیا جہاں نیک پاکباز دوشیزہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ب
گردش ِ تقدیر نے اسے اندھا اور اپاہج بنا دیا ہے۔ نوجوان نے بات سن کر کہا اے محترم انسان کیا آپ کی اندھی اور معذور لڑکی سے شادی کر کے میری غلطی معاف ہو سکتی ہے۔ نوجوان کا سوا ل سن کر باغ کا مالک بھی پریشان سا ہو گیا اور بولا دنیاوی قانون کے مطابق تو یہ شرط ٹھیک نہیں لیکن میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تمہا ری معافی اسی صورت پو ری ہو گی جب تم میری دوسری شرط پو ری کرو گے۔
نوجوان نے دل میں اپنے خدا کو یا دکیا اور دعا کی کہ اے مالک مجھے استقامت دے اور پھر نوجوان نے اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیا۔بوڑھے شخص نے جلدی جلدی شادی اور نکاح کے سارے انتظامات کر دئیے بوڑھے باپ اور نوجوان کے چہروں پر خاص قسم کا نور پھیلا ہوا تھا جو واضح طور پراِس چیز کی نشاندہی کر رہا تھا کہ دونوں کے چہروں پر فرض کی ادائیگی کا نور تھا۔اور پھر رات کو نوجوان اپنی دلہن کے کمرے میں
اپنی ڈیوٹی شروع کر وٹھیک ایک ماہ بعد تم سے ملا قات ہو گی بوڑھا شخص یہ کہہ کر چلا گیا۔ نوجوان نے بہت ایمان داری اور محنت سے ایکماہ باغ کو پانی دیا۔ نوجوان ایک بار پھر باغ کے مالک کے سامنے سر جھکائے کھڑا اگلے حکم کا منتظر تھا
باغ کا مالک حیرت سے نوجوان کو دیکھ رہا تھا۔ جس کے ماتھے پر عبادت کا نشان اور کردار کا نو رچمک رہا تھا جو اپنی دوسری شرط پو ری کر کے احساس ندامت کے سمند ر سے نکلنا چاہتا تھا بوڑھے مالک نے غور سے نوجوان کو دیکھا اور دوسری شرط بیان کی کہ دوسری شرط کے مطابق تمہیں میری بیٹی سے شادی کر نا ہو گی۔ نوجوان نے حیرت سے مالک کی طرف دیکھا اور کہا میں آپ کی بیٹی سے شادی کر نے کے لیے تیا ر ہوں اب بوڑھا مالک سنجیدہ لہجے میں بو لا میں شادی سے پہلے تمہیں اپنی بیٹی کے عیب بتا دینا چاہتا ہوں میری بیٹی پیدائشی بد صورت ہے گردش ِ تقدیر نے اسے
چہرے پر ملکوتی نور پھیلا ہو اتھا بوڑھے مالک نے دلنواز تبسم سے نوجوان سے آنے کا سبب پو چھا تونوجوان نے سارا واقعہ سنا دیا اور کہا کیونکہ میں نے سیب کھا کرجرم کیا ہے
اِس لییآپ مجھے اِس جرم کی سزا دیں باغ کے مالک نے غور سے نوجوان کو سر سے پاں تک دیکھا اور سنجیدہ لہجے میں کہا میرا تمہارا احسان برابر ہو سکتا ہے لیکن اِس کی دو شرطیں ہو نگیں۔ پہلی شرط یہ ہو گی کہ تم ایک ماہ مسلسل میرے باغ کو پانی دو گے جب تم یہ ڈیوٹی احسن طریقے سے سر انجام دے دو گے تومیں تمھیں دوسری شرط بتاں گا اب اِن دونوں شرطوں میں سے اگر تم نے ایک بھی پو ری نہ کی تو روزِ محشر تم میرے قرض دار ہو گے نوجوان نے فوری طور پر اقرار میں گردن ہلا دی کہ مجھے آپ کی دونوں شرطیں منظور ہیں بوڑھے مالک نے حیرت اور سکوت سے نوجوان کو دیکھا اور کہا تم ٹھیک ہو، تم آج سے ہی اپنی ڈیوٹی ش
و رازقِ عالم کی رزاقی سمجھا پکڑا اور کھا لیا۔
سیب کھانے کے بعد طمانیت کا احساس ہوا لیکن اچانک دماغ میں ایک اندیشے نے سر ابھارا کہ یہ سیب کس کا تھا اِس کا مالک کو ن تھا میں نے مالک کی مرضی کے بغیر ہی سیب کھا لیا یہ تو چوری ہو گئی نوجوان کی روحانی کیفیت بسط سے قبض میں تبدیل ہو گئی کہ میں نے مالک کی مرضی کے بغیر سیب کھا لیا نوجوان کا اضطراب و حشت میں بدل گیا۔ بے قراری اِس قدر بڑھ گئی کہ جدھر سے سیب آیا تھا ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔ کا فی لمبے سفر کے بعد اسے سیبوں کا باغ دکھائی دیا کیونکہ سیبوں کے درخت دریا کے اوپر جھکے ہو ئے تھے۔ نو جوان کو یقین ہو گیا کہ وہ سیب اِسی باغ سے گیا تھا نوجوان تیزی سے با غ میں داخل ہو اتو سامنے ایک مزدور ملا اس سے مالک کا پو چھا تھوڑی دیر میں ہی باغ کا مالک ایک بوڑھا شخص آگیا بوڑھے شخص کے چہرے پر ملکوتی نور پھیلا ہ
اور خالق کے جلو ں میں اِیسا گم ہو جا تا ہے کہ دنیا کی خبر نہیں رہتی
خالقِ کائنات اور مظاہرفطرت پر غور و فکر اور مراقبہ عاشق پر غالب آجا تا ہے ایسے لوگ پھر پہاڑوں، غاروں، صحراں اور دریا کے کناروں کا رخ کر تے ہیں۔ دریا کا پانی مٹی کی خوشبو آزاد ہو ائیں فضا ئیں سالک کی روح کو معطر اورمشام کو مسحور کر دیتی ہیں۔ چند صدیاں پہلے ایک نوجوان پر ایسی ہی تجلی وارد ہو ئی تو وہ ذہنی آسودگی اور اطمینان قلب کے لیے دنیا کو چھوڑ کر دریا کے کنارے ڈیرا لگاتا ہے۔ دریا کا پانی اور آزاد ہو اں فضاں نے اس پر اور بھی جذب و سکر کا غلبہ کر دیا کئی دن اِسی استغراق کے عالم میں گزر گئے کئی دن کی بھوک کے بعد جسم پر کمزوری نے غلبہ ڈالنا شروع کر دیا۔نوجوان نے ادھر ادھر دیکھا لیکن یہاں پر کھانے کو کچھ نہ تھا اچانک دریا میں بہتے ہو ئے سیب پر نظر پڑی نوجوان نے سیب کو رازقِ
قربانی ہے تو ہون لگتا ہے اگلے ہی لمحے مرنے والا ہے۔ یقینا حضرت انسان کا یہی تضاد کائنات کا اصل حسن ہے۔کر ہ ارض پر اربوں انسانوں کے اِس ہجوم میں ایک مقدس گروہ ایسا بھی ہر دور میں رہا ہے جو کائنات کے لا زوال حسن اور ترتیب کو دیکھ کر خالق کائنات کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے پھر یہ لوگ مالک بے نیاز کے قرب کے لیے اپنے جسم اور روح کی کثافتوں کو لطافتوں میں بدلنے کے لیے عبادت ریاضت اور مجاہدے کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں جب یہ اپنی اِس کو شش میں خالق ارض و سما کو اپنی طرف متوجہ کر تے ہیں تو اول و آخر ظاہر و باطن رحمن رحیم کریم اِن پر محبت بھری ایک نظر ڈالتا ہے جیسے ہی مالک بے نیاز کی پہلی تجلی کسی عاشق ِ الہی پر وارد ہو تی ہے تو عاشق و سالک خلوت گزینی تنہائی کی طرف مائل ہو جا تا ہے دنیا کے ہنگاموں سے دل اچاٹ ہو جا تا ہے کا ئنات کے حسن اور
روزِ اول سے اِس رنگ و بو کی دنیا میں حضرت انسان اپنے حصے کا کردار اور اظہار کر تا ہے اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر مٹی کا حصہ بن جا تا ہے انسان اپنی فطرت اور مزاج میں عجب مجموعہ ہے عفو و در گزر پر آئے تو قا تل کو شربت کا جام پیش کر دیتا ہے اور اگر دشمنی اور انتقام پر آئے تو مخالف کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلاخیں پھروا دیتا ہے۔ بے نیاز قلندری اس قدر کہ تخت شاہی چھوڑ کر بن باس لیتا ہے اور حریص اِس قدر کہ تخت شاہی اور اقتدار کے لیے با پ کو جیل بھجوا کر بھائیوں کی گردنیں تن سے جدا کرکے زندہ کھال کھینچوا دیتاہے۔ سخی اتنا کہ ہزاروں بار کسی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دینے کو تیار اور بخیل اِس قدر کہ چند سِکوں کی خاطر اپنے بھائیوں کا خون بہا دیتاہے مال و دولت اکٹھی کر نے پر آئے تو لگتا ہے ہزاروں برس زندہ رہے گا اور اگر قربانی پرآئ
وہ شخص کون ہے ہم نہیں جانتے‘ وہ آپ کا ڈرائیور ہو سکتا ہے‘ آپ کا چوکی دار اور آپ کا مہمان ہو سکتا ہے یا وہ کوئی بیوہ عورت یا یتیم بچہ ہو سکتا ہے یا پھر زمانے کا ٹھکرایا ہوا کوئی مظلوم شخص ‘ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا سمجھ کر اسے آپ کے پاس بھجواتا ہے اگر آپ نے یہ ذمہ داری قبول کر لی تو آپ کے گرد رونق کے ڈھیر لگ جائیں گے اور اگر آپ نے انکار کر دیا تو وہ شخص آپ کی ساری رونقیں لے کر کسی دوسرے کے دروازے پر چلا جائے گا اور آپ اس کے بعد پوری زندگی اللہ کے فضل کا انتظار کرتے رہ جائیں گے۔
end
انتہائی پسے ہوئے طبقے سے نکلا ہواہے‘ میں نے اس سے کام یابی کا گُر پوچھا تو اس نے ہنس کر جواب دیا‘ اللہ تعالیٰ کی ونڈ‘ مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آئی‘ اس کا جواب تھا اللہ تعالیٰ جب کسی مظلوم اور بے سہارا کی سنتا ہے تو یہ اسے کسی خوش حال شخص کی پناہ میں دے دیتا ہے‘ وہ شخص اگر اسے اللہ کا مہمان یا نمائندہ سمجھ کر سنبھال لے تو اللہ تعالیٰ جواب میں اسے بہت نوازتا ہے اور اگر وہ اسے دھتکار دے تو اللہ اپنے مہمان کو کسی دوسرے شخص کے پاس بھجوا کر اپنے فضل کے دروازے اس پر بند کر دیتا ہے‘ میرے پاس آج تک اللہ نے جو بھی بندہ بھجوایا میں نے اسے مایوس واپس نہیں جانے دیا لہٰذا میرے اردگرد اللہ کے کرم کے ڈھیر لگے رہتے ہیں‘ یہ رکے اور پھر بولے‘ آپ کے اوپر اللہ کا جتنا بھی فضل ہوتا ہے یہ کسی نہ کسی شخص کی دین ہوتا ہے‘ وہ شخص کون ہے ہم نہیں جانتے‘ وہ آپ کا ڈرائیو
یہ چائے بظاہر دو لوگوں کے لیے ہوتی تھی لیکن اس سے چار کپ نکل آتے تھے‘ ہم دو بندے یہ چائے دو بار پیتے تھے‘ ہم بعض اوقات دوسری مرتبہ بھی مانگ لیتے تھے اور وہ ماتھے پر شکن لائے بغیر ہمیں چائے دے دیتا تھا اور بل صرف ہاف سیٹ کا لیتا تھا‘ میں زندگی میں کھسک کر کہیں سے کہیں چلا گیا‘ چند برس قبل اپنے ماضی کے کھوج میں واپس گیا تو پتا چلا چائے کا وہ کھوکھا پورا کمپلیکس بن چکا ہے‘ اس کا مالک بزرگ ہو گیا ہے‘ صرف آتا اور جاتا ہے باقی سارا کام اس کے بچے کرتے ہیں‘ وہ جس عمارت کے کونے میں کھوکھا لگاتا تھا وہ اس نے خرید لی ہے اور کھوکھے میں اب لمبا چوڑا ریستوران چل رہا ہے‘ یہ لوگ کیٹرنگ کی کمپنی بھی چلاتے ہیں‘ میں نے دیکھا یہ لوگ آج بھی اسی وسعت قلبی سے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں‘
میں اسی طرح پاکستان کے ایک کھرب پتی کو جانتا ہوں‘یہ ان پڑھ ہے اور معاشرے کے ان
‘ بچوں کو ٹافیاں اور بسکٹ دے دیتا ہوں اور بڑوں کو میوے اور سوہن حلوے کا ٹکڑا یہ ساری برکت اس کی دین ہے‘ شاہ صاحب کا کہنا تھا یہ میری والدہ کی ہدایت تھی‘ امی جی مرحومہ کہا کرتی تھیں جس دروازے پر لوگوں کا منہ چلتا ہو وہاں اللہ خاص کرم کرتا ہے اور میں اس کا عملی تجربہ کر رہا ہوں‘ میں مدت بعد دوبارہ اس جگہ گیا تو میں نے دیکھا شاہ صاحب کی دکان کو تالہ لگا ہوا ہے اور وہ پورا کمپلیکس اجڑ چکا ہے‘ میں نے لوگوں سے پوچھا تو پتا چلا شاہ صاحب بیمار ہوگئے تھے جس کے بعد دکان پر ان کا بیٹا بیٹھنے لگا‘ اس کا خیال تھا والد سیل سے زیادہ لوگوں کو مفت چیزیں کھلا دیتے ہیں‘ اس نے یہ سلسلہ بند کر دیا اور یوں دکان اجڑ گئی‘ میری صحافت کے ابتدائی دنوں میں ہم چائے کے ایک چھوٹے سے کھوکھے سے چائے پیتے تھے‘ اس کا مالک بہت اچھا تھا‘ ہم اس سے ہاف سیٹ چائے لیتے تھے‘ یہ چائے
خیمہ اکھاڑ لیتے تو کیا آج الفسطاط اور پھر قاہرہ ہوتا؟‘ یہ تاریخ کے بڑے بڑے واقعات ہیں لیکن اگر ہم اپنی زندگی کو دیکھیں‘ اس پر غور کریں تو ہمیں اپنی زندگی میں بھی بے شمار ایسے لوگ مل جائیں گے جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں رنگ دیا جو ہمارے لیے وہ گاہک ثابت ہوئے جن کی وجہ سے ہمارے ریستوران میں رونق لگی رہتی ہے۔
میری زندگی میں بھی ایسے بے شمار واقعات ہیں‘ میں لاہور میں طالب علمی کے دور میں ایک دکان کے سامنے بہت رش دیکھتا تھا‘ وہ ایک تین منزلہ عمارت تھی‘ نیچے دکان تھی اور اوپر فلیٹ‘ ہم فلیٹ میں رہتے تھے‘ نیچے کریانہ کی دکان تھی اور وہ بہت چلتی تھی‘ دکانیں دائیں بائیں بھی تھیں لیکن شاہ صاحب کی دکان پر ہمیشہ رش رہتا تھا‘ میں نے ایک دن ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا‘ میں اپنے ہر گاہک کو کچھ نہ کچھ کھانے کی چیز دے دیتا ہوں‘ بچوں
شہر کی بنیاد بنا‘ حضرت عمر بن العاصؓ نے 640 ء میں مصر فتح کیا‘ آج جہاں قاہرہ شہر آباد ہے وہاں ان کا خیمہ ہوتا تھا‘ یہ اپنا خیمہ چھوڑ کر آگے نکل گئے‘ چند دن بعد واپس آئے تو خیمے میں فاختہ نے انڈے دے رکھے تھے‘ حضرت عمربن العاصؓ نے اپنا خیمہ فاختہ کے لیے چھوڑ دیا اور مدینہ واپس چلے گئے‘ عربی زبان میں خیمے کو فسطاط کہتے ہیں‘ حضرت عمر بن العاصؓ کے خیمے کی وجہ سے یہ علاقہ الفسطاط مشہور ہو گیا اور اس کے گرد آہستہ آہستہ لوگ آباد ہونے لگے بعدازاں فاطمیوں کے دور میں اس بستی کے گرد قاہرہ شہر آباد ہو گیا‘ الفسطاط آج بھی قاہرہ کے پرانے حصے میں موجود ہے اور اس فاختہ کو یاد کر رہا ہے جس کے چار انڈوں نے تاریخ کا شان دار ترین شہر آباد کر دیا‘ آپ دیکھ لیں فاختہ کتنا بڑا وسیلہ ثابت ہوئی اگر اس دن حضرت عمر بن العاص ؓ فاختہ کو اڑا دیتے اور خیمہ اکھاڑ لیتے تو کی
حلیمہ سعدیہؓ کی کہانی پڑھیں‘ آپ کو ریستوران کے مالک کا فلسفہ سمجھ آ جائے گا‘ مائی حلیمہ غریب اور کم زور تھی‘ ان کی ساتھی دایوں کو قریش کے امیر اور خوش حال بچے مل گئے‘ وہ دایائیں کون تھیں اور انہیں قریش کے کون کون سے بچے ملے کسی کو معلوم نہیں لیکن حضرت حلیمہ سعدیہؓ کوایک یتیم بچہ ملا اور اس یتیم بچے نے انہیں تاریخ بنا دیا‘ یہ اگر اس دن وہ بچہ چھوڑ جاتیں تو کیا آج ان کا نام تاریخ میں ہوتا؟ ہرگز نہ ہوتا اور اگر انہیںبھی اس دن کوئی خوش حال گھرانہ مل جاتاتو یقینا ان کی انکم میں اضافہ ہو جاتا لیکن ان کی گود رسول اللہ ﷺ سے محروم رہ جاتی اور یہ آج تاریخ کا حصہ نہ ہوتی لہٰذا مائی حلیمہ سعدیہ کی مسکینی اور غربت اللہ کو پسند آ گئی اور اس نے ان کی گود میں سرکارِ دوجہاں ﷺ ڈال کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ اسی قسم کا ایک واقعہ قاہرہ شہر کی بنی
یں بھیڑ کر دیتا تھا‘ میں چپ چاپ واپس آیا اور بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ریستوران میں بھیڑ ہو ئی‘ یہ اس بھیڑ میں آیا‘ کھانا کھایا اور چپ چاپ نکل گیا‘ میں اب روز دیکھتا ہوں‘ یہ آتا ہے تو بھیڑ ہو جاتی ہے اور جس دن یہ نہیں آتا اس دن یہاں اُلو بول رہے ہوتے ہیں‘ آپ بھی اس دن ناغہ کر جاتے ہیں چناں چہ یہ میرا محسن ہے‘ یہ ساری بھیڑ اس کی برکت ہے‘ آپ اس پر توجہ نہ کریں‘ اپنا ناشتہ کریں اور نکل جایا کریں‘ اس کی طرف نہ دیکھیں‘ ہم بھی اسے نہیں دیکھتے‘ ہمیں خوف ہے یہ کہیں پکڑے جانے کے ڈر سے یہاں آنا بند نہ کر دے اوراگر یہ ہوگیا تو میرا سارا کاروبار تباہ ہو جائے گا۔
یہ ایک کہانی ہے‘ اس کہانی کے اندر قدرت کا اہم ترین راز چھپا ہوا ہے‘ قدرت ہم سب کو کسی نہ کسی کا وسیلہ بناتی ہے‘ قدرت کے یہ وسیلے مائی حلیمہ ہوتے ہیں‘ آپ حضرت حلیمہ سعدیہؓ ک
نے اس پر نظر رکھی ہوئی تھی‘ میں اسے رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتا تھا‘ میرا خیال تھا یہ ناشتے کے بعد جوں ہی فرار ہونے لگے گا میں اسے دبوچ لوں گا‘ میری تیاری پوری تھی لیکن یہ اس دن ریستوران میں داخل نہیں ہو رہا تھا‘ میں نے دور سے محسوس کیا یہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہا ہے‘ یہ بڑبڑاتا ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتا ہے‘ میں تجسس سے مجبور ہو کر اس کے پاس کھڑا ہو گیا‘ اس نے مجھے نہیںپہچانا‘ میں نے سنا‘ یہ باربار آسمان کی طرف دیکھ کر کہہ رہا تھا ’’باری تعالیٰ بہت بھوک لگی ہے‘ تو اس دکان میں اتنا رش کر دے کہ میں کھانا کھا کر چپ چاپ نکل سکوں‘‘ یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور مجھے معلوم ہوا میں جس بھیڑ کو اپنی خوش قسمتی اور کمال سمجھ رہا تھا وہ اس ایک شخص کے کھانے کے لیے تھی‘ اللہ تعالیٰ روز اس کا پردہ رکھنے کے لیے میرے ریستوران میں بھیڑ کر دیتا تھ
’کیا مطلب؟‘‘ مالک نے کائونٹر پر جونیئر کو بٹھایا ‘ اکائونٹینٹ کو سائیڈ پر لے کرکھڑا ہوا اور ہاتھ جوڑ کر بولا ’’بیٹا میرا ریستوران صبح کے وقت ویران ہوتا تھا‘ میں روز آتا تھا‘02.
ناشتہ تیار کرتا تھا لیکن گاہک نہیں آتے تھے ہاں البتہ دوپہر اور شام کے وقت تھوڑے بہت گاہک آ جاتے تھے اور یوں میرا دال دلیہ چل جاتا تھا لیکن پھر ایک دن کمال ہو گیا‘ میرے پاس صبح کے وقت بھی رش ہو گیا اور میرا سارا ناشتہ بک گیا‘ دوسرے دن بھی رش تھا‘ میں نے اس رش میں اس شخص کو دیکھا‘ اس نے کھانا کھایا اور رش کا فائدہ اٹھا کر نکل گیا‘ میں اس کے پیچھے بھاگا لیکن یہ گلیوں میں غائب ہو گیا‘ اگلے دن میرے پاس رش کم تھا‘ میں نے دیکھا‘ یہ آیا اور ریستوران کی سائیڈ پر سڑک پر کھڑا ہو گیا‘ یہ بار بار ریستوران کی طرف دیکھتا تھا‘ میں نے اس پر نظ
ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ منگوا رہے تھے‘ کھا رہے تھے اور بل دے کر جا رہے تھے‘ نوجوان اکائونٹینٹ ریستوران کا مستقل گاہک تھا‘ وہ روز دیکھتا تھا گاہکوں کے درمیان درمیانی عمر کا ایک شخص آتا تھا‘ ناشتے کا آرڈر دیتا تھا‘ ناشتہ کرتا تھا اور بھیڑ کا فائدہ اٹھا کر بل دیے بغیر چپ چاپ نکل جاتا تھا‘ یہ اس کے روز کا معمول تھا‘ اکائونٹینٹ کومحسوس ہوا یہ دکان دار کے ساتھ زیادتی ہے‘ اس بے چارے کا مسلسل نقصان ہو رہا ہے لہٰذا ایک دن جب گاہک ناشتے کے بعد فرار ہونے لگا تو وہ اٹھا‘ سیدھا مالک کے پاس گیا اور اس شخص کی طرف اشارہ کر کے اسے بتادیا یہ روز بل دیے بغیر نکل جاتا ہے‘ مالک نے اکائونٹینٹ کی طرف دیکھا پھر ترچھی نظر سے مفت خور کو دیکھا اور مسکرا کر بولا ’’اسے جانے دیں‘ یہ ساری رونق اس کی وجہ سے ہے‘‘ نوجوان نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا مطلب
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain