تیری یادوں نے تڑپایا بہت ہے بھلے ہی دل کو سمجھایا بہت ہے بہت زخمی کیا ہے دل کو تم نے تمہیں کو پھر بھی اپنایا بہت ہے کھلے رہتے ہیں زخم دل ہمیشہ خزاں نے ظلم تو ڈھایا بہت ہے لب جاناں جو زمزم آتشیں تھا حواسوں پر مرے چھایا بہت ہے لغت میں حسن کی تعریف ڈھونڈھی مگر ہر لفظ کم مایہ بہت ہے دل آتش کی سازش میں زمانیؔ شب ہجراں کو گرمایا بہت ہے
طے کروں گا یہ اندھیرا میں اکیلا کیسے میرے ھمراہ چلے گا مِرا سایا کیسے میری آنکھوں کی چکا چوند بتا سکتی ھے جس کو دیکھا ھی نہ جائے، اُسے دیکھا کیسے چاندنی اُس سے لپٹ جائے، ھوائیں چھیڑیں کوئی رہ سکتا ھے دُنیا میں اچُھوتا کیسے میں تو اُس وقت سے ڈرتا ھُوں کہ وہ پُوچھ نہ لے یہ اگر ضبط کا آنسُو ھے تو ٹپکا کیسے یاد کے قصر ھیں، اُمید کی قندیلیں ھیں میں نے آباد کیے درد کے صحرا کیسے اِس لیے صرف خدا سے ھے تخاطب میرا 🥀میرے جذبات کو سمجھے گا فرشتہ کیسے
ہم مر گئے تو سب کو دفنانے کی فکر ہوگی کسی کو قبر کی تو کسی کو لے جانے کی فکر ہوگی میرا نام پکارا جائے گا مسجد کے مناروں سے کہیں دیر نہ ہوجائے جنازے کی فکر ہوگی پہلے روتے تھے میرے مرنے کے افسوس میں ہم چلے گئے تو انکو کھانے کی فکر ہوگی جونہی شام ہوگی پریشانی بڑھ جائے گی کتنے مہمان اگئے انکو سلانے کی فکر ہوگی پھیکے چاول بنائیں گے سب کڑاہی گوشت بنائیں گے 🥀سب کو خاندان میں عزت بنانے کی فکر ہوگی