رکھی ہے حسن پہ بنیاد عاشقی میں نے خوشی سے موت کو دے دی ہے زندگی میں نے کیا کبھی نہ سوا تیرے غیر کو سجدہ خراب شرک نہ کی رسم بندگی میں نے خدائی مل گئی سرکار عشق سے مجھ کو خودی کے بدلے طلب کی جو بے خودی میں نے چھلکتا ساغر مے پی کے چشم ساقی سے سکھائی سارے زمانہ کو مے کشی میں نے بہار گور غریباں نہ کیوں لحد ہو مری کہ جمع کی ہے زمانہ کی بیکسی میں نے بدل کے رنگ ڈرائے نہ آسماں مجھ کو مزاج یار کی دیکھی ہے برہمی میں نے بتا کے عیب و ہنر شعر گوئی کے افقرؔ سکھائی اپنے حریفوں کو شاعری میں نے افقر موہانی
یہ دور محبت کا لہو چاٹ رہا ہے انسان کا انسان گلا کاٹ رہا ہے دیکھو نہ ہمیں آج حقارت کہ نظر سے یارو کبھی اپنا بھی بڑا ٹھاٹ رہا ہے پہلے بھی میسر نہ تھا مزدور کو چھپر اب نام پہ دیوار کے اک ٹاٹ رہا ہے دیکھا ہے جسے آپ نے نفرت کی نظر سے نفرت کی خلیجوں کو وہی پاٹ رہا ہے حیران ہوں کیا ہو گیا اس شخص کو انورؔ جس ڈال پہ بیٹھا ہے اسے کاٹ رہا ہے انور کیفی
بے تمنا ہوں خستہ جان ہوں میں ایک اجڑا ہوا مکان ہوں میں جنگ تو ہو رہی ہے سرحد پر اپنے گھر میں لہولہان ہوں میں غم و آلام بھی ہیں مجھ کو عزیز قدر دانوں کا قدردان ہوں میں ضبط تہذیب ہے محبت کی وہ سمجھتے ہیں بے زبان ہوں میں لب پہ اخلاص ہاتھ میں خنجر کیسے یاروں کے درمیان ہوں میں چھید ہی چھید ہیں فقط جس میں ایسی کشتی کا بادبان ہوں میں جو کسی کو بھی آج یاد نہیں بھولی بسری وہ داستان ہوں میں یا گراں گوش ہے نگر کا نگر یا کسی دشت میں اذان ہوں میں شاعری ہو کہ عاشقی عابدؔ ہر روایت کا پاسبان ہوں میں
دکھی دلوں کے لیے تازیانہ رکھتا ہے ہر ایک شخص یہاں اک فسانہ رکھتا ہے کسی بھی حال میں راضی نہیں ہے دل ہم سے ہر اک طرح کا یہ کافر بہانہ رکھتا ہے ازل سے ڈھنگ ہیں دل کے عجیب سے شاید کسی سے رسم و رہ غائبانہ رکھتا ہے کوئی تو فیض ہے کوئی تو بات ہے اس میں کسی کو دوست یونہی کب زمانہ رکھتا ہے فقیہ شہر کی باتوں سے در گذر بہتر بشر ہے اور غم آب و دانہ رکھتا ہے معاملات جہاں کی خبر ہی کیا اس کو معاملہ ہی کسی سے رکھا نہ رکھتا ہے ہمیں نے آج تک اپنی طرف نہیں دیکھا توقعات بہت کچھ زمانہ رکھتا ہے قلندری ہے کہ رکھتا ہے دل غنی انجمؔ کوئی دکاں نہ کوئی کارخانہ رکھتا ہے انجم رومانی
تمہاری راہ میں نظریں جما کے بیٹھے ہیں تمہی کو دل میں صنم ہم بسا کے بیٹھے ہیں ہمارے دل کی صدا سن تمہیں بلاتی ہے تمھارے عشق میں سب کچھ لٹا کے بیٹھے ہیں ہمیں کوئی نہیں شکوہ جو ہو تمہی سے جاں تمام شکوے قسم سے بھلا کے بیٹھے ہیں تمھارے دید سے ملتی ہے اک خوشی ہم کو تمھارے ہی لیے دل کو سجا کے بیٹھے ہیں پیام پیار کا بھیجا ہے ہم نے تم کو آج ہوا میں نام تمھارے اڑا کے بیٹھے ہیں for u N
شکوۂ غم نہ مصائب کا گلہ کرتے ہیں رب کا ہر حال میں ہم شکر ادا کرتے ہیں وہ عبادت نہیں کرتے ہیں ریا کرتے ہیں جو دکھاوے کے لئے ذکر خدا کرتے ہیں معرفت عشق کی ہو جاتی ہے جن کو حاصل سجدۂ شوق وہ تیغوں میں ادا کرتے ہیں ختم ہوگی نہ کبھی حق کے چراغوں کی ضیا یہ دیے تند ہوا میں بھی جلا کرتے ہیں اپنے بیگانے کی تفریق نہیں ان کا شعار جو بھلے لوگ ہیں وہ سب کا بھلا کرتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں برابر کے ستم گر کی طرح ہر ستم سہ کے جو خاموش رہا کرتے ہیں جب لگا روگ محبت کا تو محسوس ہوا لوگ کیوں عشق کو آزار کہا کرتے ہیں حق بیانی ہے اگر جرم تو ہم ہیں مجرم ظلم سے لڑنا خطا ہے تو خطا کرتے ہیں حسن پیدا کرو کردار و عمل میں اپنے غیر کو دیکھو نہ احسنؔ کہ وہ کیا کرتے ہیں
بانہوں کے کسی ہار کی محتاج نہیں ہے چاہت ہے یہ اقرار کی محتاج نہیں ہے دیوار اٹھاتے ہوئے یہ سوچ تو لیتے خوشبو کسی دیوار کی محتاج نہیں ہے اک روز میں آئی تھی اسی آنکھ کی زد میں وہ آنکھ جو تلوار کی محتاج نہیں ہے تم میری محبت کو پڑھو آنکھ میں میری یہ پیار کے اظہار کی محتاج نہیں ہے خالص ہو تو ہو جائے کسی سے یہ محبت اس عہد کے معیار کی محتاج نہیں ہے محبوب کی صورت کا اگر نقش ہو دل پر پھر آنکھ تو دیدار کی محتاج نہیں ہے احسان نہیں چاہیے یہ سن لو نعینہ بھی مانگے ہوئے اس پیار کی محتاج نہیں ہے
کرتے ہیں ستم روز وہ مرنے نہیں دیتے وہ میرے کسی زخم کو بھرنے نہیں دیتے یہ سوچ کے دل میں نہیں کینہ کو جگہ دی نفرت کے سبب دل کو سنورنے نہیں دیتے چہروں پہ بناوٹ کا لیے پھرتے ہیں غازہ بس ذات کو اپنی یہ نکھرنے نہیں دیتے حالات سدھر جائیں مرے کرتی ہوں کوشش قسمت کے ستارے ہی سدھرنے نہیں دیتے ظالم ہیں زمانے کے سبھی لوگ رشاؔ جی یہ حق کی طرف داری بھی کرنے نہیں دیتے
نالے مجبوروں کے خالی نہیں جانے والے ہیں یہ سوتا ہوا انصاف جگانے والے حد سے ٹکراتی ہے جو شے وہ پلٹتی ہے ضرور خود بھی روئیں گے غریبوں کو رلانے والے چپ ہے پروانہ تو کیا شمع کو خود ہے اقرار آپ ہی جلتے ہیں اوروں کو جلانے والے آرزوؔ ذکر زبانوں پہ ہے عبرت کے لئے مٹنے والے ہیں نہ باقی ہیں مٹانے والے