تیرا غم، اس فشارِ شب و روز میں
ہونے دیتا نہیں بے سہارا مجھے
― امجد اسلام امجد

موت آجائے غالب
دل نہ آئے کسی پہ
آدھی رات ھے وھاں کوئی نہیں ھو گا
آؤ محسن اُن کی دیوار چوم آتے ھیں
سینے سے میرے دستِ تسلی اٹھائیے
یہ بھی دلِ نحیف کو بار گراں ہے اب
داغ دہلوی
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کِس قدر جلد بدل جاتے ہیں اِنساں جاناں
احمد فراز
میں ڈھونڈنے کو زمانے میں جب وفا نکلا
پتا چلا کہ غلط لے کے میں پتا نکلا
ھیں دفن مجھ میں کتنی رونقیں یہ نہ پوچھ..!!
اُجڑ اُجڑ کے جو بستا رھا وہ شہر ھوں میں..!!
میری اَنا نے گوارا نہیں کیا 'ورنہ' میری..!!
چند بد دعاؤں کی مار تھا وہ شخص..!!
کب تک رہو گے آخر یوں دور دور ہم سے
ملنا پڑے گا تم کو ایک دن ضرور ہم سے
دامن بچانے والے یہ بے رخی ہے کیسی
کہہ دو اگر ہوا ہے کوئی قصور ہم سے
ہم چھین لیں گے تم سے یہ شان بے نیازی
تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے
ہم چھوڑ دیں گے تم سے یوں بات چیت کرنا
تم پوچھتے پھرو گے اپنا قصور ہم سے
کب تک رہو گے آخر یوں دور دور ہم سے
ملنا پڑے گا تم کو ایک دن ضرور ہم سے
